پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آفات سماوی اور کنٹرول لائن پر فائرنگ کے باعث پیدا ہونے والے ہنگامی صورت حال میں ابتدائی امداد کی فراہمی کے لیے ہزاروں افراد کو تربیت فراہم کی گئی ہے۔
بین الاقوامی ہلال احمر یا 'انٹر نیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس' کی پاکستانی کشمیر برانچ کی جانب سے گزشتہ تین برس سے جاری ہر گھر میں ایک تربیت یافتہ فرسٹ ایڈ پروگرام کے تحت اب تک 36 ہزار سے زائد افراد کو تربیت دی جا چکی ہے ۔ان میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے 25000 طالب علم شامل ہیں۔
پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی، کشمیر برانچ کے انچارج برائے کمیونیکیشن و میڈیا، محمد رستم نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ چونکہ پاکستانی کشمیر کنٹرول لائن پر واقع ہے اور آفات سماوی کے خطرات سے بھی دوچار ہے اس لیے یہاں کے لوگوں کے لیے ابتدائی طبی امداد کی تربیت بہت ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کنٹرول لائن پر دور دراز گولہ باری اور فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور مردوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، تاکہ ان علاقوں میں رہنے والے خطرات سے آگاہ رہیں۔
محمد رستم نے نے بتایا کہ کشمیر تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن پر واقع علاقوں کو خصوصی اہمیت اس لئے دی گئی ہے کہ کسی بھی وقت ہنگامی صورت حال پیدا ہونے کی صورت میں زخمیوں کو فوری طبی امداد مہیا کی جا سکے۔
محمد رستم نے بتایا کہ ہفتے کے روز 'ریڈ کریسنٹ سوسائٹی' کی طرف سے حکومت پاکستان کو کنٹرول لائن پر فائرنگ سے زیادہ متاثرہ علاقوں کے لیے پانچ ایمبولینس بھی فراہم کی گئی ہیں۔
واضع رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ 2005 میں ایک تباہ کن زلزلے کا بھی شکار ہوا تھا، جس میں پچہتر ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ ماہرین ارضیات کی طرف سے علاقے میں کئی ارضیاتی 'فالٹ لائیںوں' کی موجودگی کی وجہ سے مستقبل میں تباہ کن زلزلے آنے کی بھی پیشن گوئی کی گئی ہے؛جبکہ اس علاقے میں بیت گئے برسوں میں سیلاب بھی آتے رہے ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے خطے کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آفات کا، جن میں سیلاب بھی شامل ہے، سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس متنازعہ خطے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن پر گولہ باری سے دونوں اطراف لوگ ہلاک و زخمی ہونے کے علاوہ بے گھر ہوتے رہتے ہیں، جن کو بروقت طبی امداد کی فراہمی ایک اہم چیلنج ہوتی ہے۔