پاکستان میں افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے پیر کو وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی، جس میں دوطرفہ اُمور اور علاقائی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
رواں ماہ کی 21 تاریخ کو بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ایک امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے مارے جانے کے بعد افغان سفیر اور سرتاج عزیز کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے۔
ملاقات کی تفصیلات تو میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں تاہم واضح رہے کہ سرتاج عزیز نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت سے امن عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔
افغان سفیر عمر زخیلوال کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امن و مصالحت میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قریبی روابط ضروری ہیں کیوں کہ اُن کے بقول یہ ہی دونوں ملک حقیقی فریق ہیں۔
’’اس میں تو دو رائے نہیں ہو سکتی ہیں کہ (پاکستان اور افغانستان کے) آپس میں جب تک روابط نہیں ہوں گے ایک دوسرے کا مؤقف نہیں سمجھیں گے تو امن تو نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے ان کی ملاقات ہوئی ہے کچھ مل بیٹھ کر انھوں نے کچھ سوچا ہو گا کہ آگے کیا کیا جائے یہ تو دونوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔‘‘
افغان طالبان نے ملا منصور کے مارے جانے کے بعد مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے اگرچہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے چار ملکی گروپ کی سطح پر کوششیں جاری رکھے گا۔
اس گروپ میں افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندے شامل ہیں۔ اس چار ملکی گروپ کی کوششوں کے باوجود تاحال طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات نہیں ہو سکے ہیں اور ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ واضح نہیں کہ امن و مصالحت کے اس عمل کا مستقبل کیا ہو گا۔