رسائی کے لنکس

افغانستان کے لئے کراچی کا متبادل، چاہ بہار بندرگاہ کتنی موثر؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کا اثر دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت پر بھی پڑھ رہا ہے۔ اور حکومت کی کاوشوں کے باوجود افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب افغانستان کی قیمتی معدنیات ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے دیگر ممالک کو برآمد ہونے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت پر مزید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے اور تاجروں کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے حکام نے طورخم اور چمن کے بعد یکم مارچ سے شمالی وزیرستان کی غلام خان گزرگاہ کو باقاعدہ طور پر تجارتی مقاصد کے لئے کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔

ایک روز قبل پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے ننگرہار صوبے کے پہاڑی سلسلے سپین غر میں پائے جانے والے معدنی پتھر "شو کانڑے" سے بھرے 20 ٹرک ایران کی نو تعمیر شدہ بندرگاہ چاہ بہار پہنچے ہیں۔ مختلف اشیاء بالخصوص تعمیرات اور کراکری کے بنانے میں استعمال ہونے والا سوپ سٹون اب پاکستان اور پاکستان کے راستے دیگر ممالک کے بجائے ایران اور ایران کے راستے ہندوستان اور دیگر ممالک کو برآمد کیا جائے گا۔

نہ صرف پاکستان سے ملحقہ بلکہ افغانستان کے طول و عرض میں معدنیات کے وسیع تر ذخائر موجود ہیں اور ان ذخائر کا بیشتر حصہ اب تک پاکستان اور پاکستان کے راستے دیگر ممالک کو برآمد کیا جا رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور قبائلی تاجر زاہد اللہ شینواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ویسے تو 2014ء سے غلام خان گزرگاہ کے ذریعے افغانستان کو برآمدات کا سلسلہ شروع ہے مگر وہاں پر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

تاہم اُنہوں نے کہا کہ اب کسٹم اور دیگر سرکاری محکموں کے لئے دفاتر وغیرہ تو قائم کر دئیے گئے ہیں مگر سرحد کے اُس پار افغان حکومت نے کسٹم اور دیگر محکموں کے دفاتر قائم نہیں کئے ہیں جس کی وجہ سے غلام خان کے راستے دو طرفہ تجارت ابھی تک باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے پچھلے مہینے کے اواخر میں افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت بڑھانے اور تعلقات میں بہتری لانے کے لئے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو شب و روز کھولنے کے اعلان پر عمل درآمد کے لئے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے بھی چند روز قبل سرحدی حصے لنڈی کوتل میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم کے فیصلے پر جلد از جلد عمل در آمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

مگر زاہد اللہ شینواری کے بقول جب تک افغان حکام سرحد کے اُس طرف اقدامات شروع نہ کرے تب تک غلام خان کے سرحدی گزرگاہ کے کھولنے اور وزیراعظم کے طورخم کے بارے میں اعلان پر عمل درآمد نا ممکن ہے۔

ایران بندرگاہ چاہ بہار کے راستے افغانستان کے سوپ سٹون اور دیگر معدنی وسائل کو ہندوستان اور دیگر ممالک کو برآمد کرنے کے بارے میں زاہد اللہ شینواری نے کہا کہ اس کے پاکستان پر منفی اثرات ہوں گے کیونکہ اس سوپ سٹون سے چلنے والے زیادہ تر کارخانوں کے لئے خام مال مہیا کرنے میں دشواری ہو گی۔

اُنہوں نے کہا کہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں سوپ سٹون کے بجائے ایک متبادل کیمیکل کے آنے سے منفی اثرات سے بچایا جاسکتا ہے۔

تاہم اُنہوں نے کہا کہ چاہ بہار کے راستے افغانستان کے بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت شروع ہونے سے پاکستان پر انتہائی منفی اثرات پڑیں گے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی دو طرفہ تجارت میں 80 فیصد طورخم جب کہ 20 فیصد چمن کے راستے سے ہو رہا ہے جبکہ غلام خان گزرگاہ کے راستے دونوں ممالک کے درمیان 15 سے 20 ٹرک آتے جاتے ہیں مگر ابھی تک اس گزرگاہ کے ذریعے باقاعدہ تجارت اور آمد و رفت شروع نہیں ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2018ء سے لے کر دسمبر 2018ء تک افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں لگ بھگ 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس سال افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا حجم 608.533 ملین ڈالر جو کہ 2017ء میں739.233ملین ڈالر تھا۔

تاہم اس دوران افغانستان کو برآمدات میں 20.47 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ 2017ء کے 163.164 ملین ڈالر کے حجم سے کم ہو کر 2018ء میں صرف 74.193 ملین ڈالر رہ گی تھیں۔

پاکستان اور افغانستان کے صنعتکاروں اور تاجروں کی تنظیم کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو دوطرفہ تجارت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔

ماضی کے نسبت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی اور سیاسی سطح پر اختلافات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے سرحدی پابندیوں کے وجہ سے نہ صرف دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں بلکہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں میں بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG