پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر طورخم اور چمن کی گزر گاہیں منگل کی صبح عارضی طور پر کھول دیں جس سے سرحد کے آر پار آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تاہم ان گزرگاہوں سے صرف ایسے افغان جو مصدقہ ویزا کے ساتھ پاکستان آئے تھے اور واپس جانے کے خواہشمند ہیں وہ سفر کر سکیں گے۔ اسی طرح افغانستان گئے ہوئے پاکستانی ہی فی الوقت گزرگاہ کی بحالی سے استفادہ کر سکیں گے۔
تاہم دوطرفہ تجارتی سرگرمیاں فی الحال معطل ہی رہیں گے اور صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک لوگ پیدل ہی سرحد عبور کر سکیں گے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے پیر کو دیر گئے بتایا تھا کہ خیبر ایجنسی میں طورخم اور بلوچستان میں چمن کے مقامات پر سرحد منگل اور بدھ کو کھلی رہے گی۔
پاکستان نے گزشتہ ماہ ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے مہلک دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد یکطرفہ طور پر بند کر دی تھی۔
دو ہفتوں سے زائد عرصے تک سرحد کی اس بندش پر افغان حکام کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھولے جانے کے مطالبات کیے جاتے رہے۔ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ سرحد کی عارضی بندش کا فیصلہ سرحدی علاقوں میں سلامتی کے تناظر میں کیا گیا۔
اس بندش سے ہزاروں ایسے افغان شہری جن کے پاس پاکستان کا مصدقہ ویزا تھا واپس جانے سے محروم ہو گئے تھے اور آئے روز ان کی طرف سے احتجاج اور مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے پاس زاد راہ ختم ہو چکا ہے اور وہ پاکستان میں انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
منگل کو طورخم اور چمن کے راستوں سے سخت سکیورٹی میں دونوں جانب سے لوگوں کی آمدورفت شروع ہوئی اور شام تک ہزاروں افغان اور پاکستانی ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہوئے۔
پاکستان اور افغانستان کے مختلف حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرحد کی بندش سے خاص طور پر دونوں جانب کے عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں لہذا حکومتیں اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کریں اور گزرگاہوں کو کھول دیں۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ سرحد کی بندش سے پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے افغانستان پر دباؤ ڈالنے کا جو پیغام دینا چاہتا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اس سے خاص طور پر افغان عوام پر پاکستان کا تاثر کچھ اچھا نہیں پڑ رہا۔
"اگر آپ کو کوئی بڑا مسئلہ ہے تو اس میں بھی عارضی طور پر (سرحد کو) بند کرنا چاہیے یہ تو 18 دن ہو گئے تھے۔ تو میرا خیال ہے کہ اس پر بھی دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کا تاثر ہے قومی سطح پر یا افغان عوام میں جو یہ کہا جا رہا ہے کہ دل و دماغ میں گھر کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بہت شفقت والا رویہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اس طرح نہیں کرنا چاہیے کہ سکیورٹی ہے یا دہشت گردی ہے اس میں انسانی ہمدری کا عنصر ضروری ہے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے بڑی تعداد میں تعلیم اور علاج و معالجے کے لیے پاکستان آنے والوں کو سرحد کی بندش سے شدید مشکلات ہوتی ہیں اور اس سے بھی لوگوں میں پاکستان سے متعلق ایک منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔
تجارتی سامان سے لدے سیکڑوں ٹرک اور کنٹینرز بھی سرحد کے آر پار کھڑے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ جہاں اس سے تاجر برادری کو کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے وہیں اس نقل و حمل کے معطل ہونے سے محصولات کی مد بھی دونوں جانب کی حکومتوں کو خطیر خسارے کا سامنا ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ سرحد کی عارضی بندش کے دوران ایسے سامان کی نقل و حمل کی اجازت بھی دے دینی چاہیے تھی جو کہ زیادہ دن یوں پڑے رہنے سے خراب ہو سکتا ہے۔