پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک خطے خصوصاً افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے
انھوں نے یہ بات جنوبی و وسطی ایشیا کے لیے قائم مقام معاون امریکی سیکرٹری ایلس ویلز سے گفتگو میں کہی جنہوں نے پیر کو راولپنڈی میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے کے دوسرے ممالک سے بھی اس ضمن میں مساوی مثبت کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
امریکی عہدیدار نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ بھی پائیدار امن کے لیے پرعزم ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ جنرل باجوہ اور ایلس ویلز نے اتفاق کیا کہ کسی بھی تاثر کا یرغمال بنے رہنے کی بجائے ضروری ہے کہ دونوں ملک مثبت پیش رفت کے لیے اپنی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کریں۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پیر کو ہی پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد افغانستان میں امن کے لیے باہمی لائحہ عمل پر بات چیت کرنے کابل پہنچا۔
سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سربراہی میں اس وفد میں اعلیٰ سول و عسکری عہدیداران بشمول پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا افغانستان گیا ہے۔
یہ وفد افغانستان میں حکومتی اور عسکری قیادت سے ملاقات کر کے دو طرفہ تعلقات اور باہمی تعاون سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کرے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی رواں ہفتے کابل کا دورہ کرنے والے ہیں جس کی دعوت انھیں افغان صدر اشرف غنی نے دی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے شکار تعلقات میں حالیہ مہینوں میں کچھ بہتری کے آثار دکھائی دیے اور دونوں جانب سے وفود ایک دوسرے کے ہاں جا کر باہمی روابط پر بات چیت کر چکے ہیں۔
گو کہ اب تک ہونے والے ان اعلیٰ سطحی رابطوں کے نتیجے میں کوئی ٹھوس پیش رفت تو دیکھنے میں نہیں آئی لیکن غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلسل رابطوں سے ہی تعلقات میں در آئے تناؤ کو کم کر کے اعتماد سازی میں مدد مل سکتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وفد کا تازہ دورہ کابل باہمی تعلقات کے ضمن میں ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
"دونوں ملکوں کی قیادت نے بھی مثبت انداز میں سوچا ہے کہ یہ موقع ہے کہ قریب آئیں اور جو تلخیاں ہیں انھیں ختم کریں ابہام ختم کریں پیچیدگیوں میں رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، میرا خیال ہے کہ ایک بڑی مثبت سمت کی طرف جا رہے ہیں کہ اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ملک اس نکتے پر پہنچ چکے ہیں کہ خطے کی سلامتی اور عوام کی خوشحالی کے لیے دونوں کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو تعلقات بہتر بنانے کے لیے امریکہ اور چین کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کیونکہ یہ بڑی قوتیں بھی اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔