پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی راستوں کی بندش کے سبب دونوں جانب عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے گزشتہ ہفتے افغانستان کے ساتھ اپنے سرحدی راستے ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیئے تھے۔
سرحد کی بندش کے سبب ایسے افغان جو باقاعدہ ویزا لے کر پاکستان آئے تھے، اُنھیں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعہ کو پشاور میں پاسپورٹ کے ریجنل دفتر کو ہدایت کی کہ افغان شہریوں کے ویزوں میں توسیع کی جائے۔
سرکاری بیان کے مطابق سرحد کی بندش کے سبب افغان شہریوں کو پیش آنے والی مشکلات کا نوٹس لیتے ہوئے، وزیر داخلہ نے متعلقہ حکام سے کہا کہ وہ ویزوں سے متعلق مسائل کو حل کریں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام قانونی طور پر پاکستان کا سفر کرنے والوں کی سہولت کے لیے ہے۔
پاکستان میں افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے ایک روز قبل یعنی جمعرات کو ایک بیان میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاک افغان سرحدی راستوں کو کھولا جائے۔
افغان سفیر کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اس بارے میں پاکستانی حکام سے بات بھی کی ہے۔
اُدھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی راستوں کی بندش کی وجہ سے تاجر بھی پریشان ہیں اور دونوں جانب بڑی تعداد میں گاڑیاں اس انتظار میں کھڑی ہیں کہ کب راستے کھلیں اور وہ اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ایوان ہائے تجارت و صنعت کے شریک چیئرمین زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک تجارت کو سیاسی کشیدگی کے معاملات سے الگ رکھیں۔
’’یہاں بھی ہم اپنی حکومت کو ہر مرتبہ باور کرواتے ہیں اور میں نے کئی وزارتی اجلاسوں میں پاکستان میں نمائندگی کی ہے ہم نے یہ کہا کہ دیکھیں آپ کو ایک اصول بنانا پڑے گا ۔۔۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کاروبار اور سیاست کو علیحدہ کریں جب تک ہم یہ نہیں کریں گے ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کا سالانہ حجم ڈھائی ارب ڈالر تک تھا، جسے دونوں ملکوں نے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم زبیر موتی والا کے بقول حالیہ برسوں میں کشیدگی کے سبب اب دو طرفہ تجارت کم ہو کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک رہ گئی ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی راستے کب کھولے جائیں گے تاہم رواں ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا تھا کہ پاک۔افغان سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا ہے، جس میں ہر طرح کے ’’دہشت گرد‘‘ شامل ہیں۔
لیکن افغان سفیر عمر زخیلوال نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سرحدی راستوں کی بندش سے ماسوائے عوام کو درپیش مشکلات کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ سرحد تقریباً 2600 کلو میٹر طویل ہے، جس کا بیشتر حصہ دشوار گزار پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے سرحد کی کڑی نگرانی ضروری ہے۔