پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں طورخم کے مقام پر قائم پاک افغان سرحدی راستہ ایک ہفتے سے بند ہے، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان نا صرف تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد کے آرپار پھنس کر رہ گئے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد حکام نے حفاظتی اقدامات کے تحت افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی۔
طورخم گرزگاہ کے دونوں جانب سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک اور دیگر گاڑیاں کئی روز سے کھڑی ہیں، گاڑیوں کے ڈرائیور سرحد کی بندش اور غیر یقنیی حالات کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔
ان گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے صورت حال دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک گاڑی کے ڈرائیور شمشیر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں پھنس کر رہ گئے ہیں جہاں نا تو کوئی ہوٹل ہے اور نا ہی کوئی اور سہولت۔
’’ہماری درخواست یہ ہے کہ راستہ کھل جائے اور بارڈر کا معاملہ حل ہو جائے اور اگر یہ مسئلہ حل نہیں بھی ہوتا تو بھی ہم چاہتے ہیں کہ کسی آبادی میں پہنچ جائیں جہاں ہوٹل اور دیگر سہولتیں میسر ہوں۔‘‘
ایک اور ڈرائیور عبارت خان نے کہا کہ ’’ہمیں بہت مشکلات ہیں کھانا پینا بھی مشکل ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے، تو اچھی بات ہو گی۔‘‘
قبائلی تاجر ناصرخان شنواری سرحد کی بندش کو دونوں جانب آباد قبائل کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ممالک کو اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہیئے۔