پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان سے رواں سال کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے انخلاء سے پاکستانی قبائلی علاقوں کو نئے چینلجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسلام آباد میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے متعلق ایک سیمینار سے خطاب میں صدر ممنون حسین نے کہا کہ افغانستان میں جنگ سے پاکستان کے سرحدی علاقے شدید متاثر ہوئے۔
صدر ممنون حسین نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے انخلا سے پاکستان کی پوری قبائلی پٹی کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ پائیدار امن اور ترقی کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صدر کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام کی اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ حکومت قبائلی علاقوں میں سلامتی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور ملک کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں سے بات چیت سمیت تمام ممکنہ ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی پناہ گاہیں قائم ہیں جہاں سے وہ ملک کے مختلف علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے آئے ہیں۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا آغاز بھی کر رکھا ہے اور توقع ہے کہ رواں ہفتے سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی شوریٰ کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات ہو گی۔
گزشتہ ہفتے افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج (ایساف) کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے راولپنڈی میں ملاقات کی تھی جس میں خاص طور پر پاک افغان سرحد پر دوطرفہ رابطوں اور نگرانی کے طریقہ کار پر بات چیت کی گئی۔
اسلام آباد میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے متعلق ایک سیمینار سے خطاب میں صدر ممنون حسین نے کہا کہ افغانستان میں جنگ سے پاکستان کے سرحدی علاقے شدید متاثر ہوئے۔
صدر ممنون حسین نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے انخلا سے پاکستان کی پوری قبائلی پٹی کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ پائیدار امن اور ترقی کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صدر کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام کی اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ حکومت قبائلی علاقوں میں سلامتی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور ملک کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں سے بات چیت سمیت تمام ممکنہ ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی پناہ گاہیں قائم ہیں جہاں سے وہ ملک کے مختلف علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے آئے ہیں۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا آغاز بھی کر رکھا ہے اور توقع ہے کہ رواں ہفتے سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی شوریٰ کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات ہو گی۔
گزشتہ ہفتے افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج (ایساف) کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے راولپنڈی میں ملاقات کی تھی جس میں خاص طور پر پاک افغان سرحد پر دوطرفہ رابطوں اور نگرانی کے طریقہ کار پر بات چیت کی گئی۔