پاکستان نے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت سے یہ کہتا آیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہے جہاں سے وہ تنظیم کے انتظامات چلا رہا ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے منگل کو صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا پاکستان ملا فضل اللہ پر نظر رکھے ہوئے ہے اور جیسے ہی وہ پاکستانی حدود میں داخل ہوا تو اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان حکومت اپنے طور پر بھی ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کرے۔
افغانستان کی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو تنظیم کو نیا سربراہ بنایا گیا تھا۔
اس سے قبل بھی اسلام آباد یہ کہتا آیا ہے کہ کئی فرار ہونے والے پاکستانی دہشت افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنڑ میں روپوش ہیں جہاں سے وہ پاکستانی علاقوں میں کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی رنگین دادفر سپانتا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں اُنھوں نے وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ دیگر اعلیٰ پاکستانی عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق رنگین دادفر سپانتا کے اس دورے کے دوران ہونے والی بات چیت کا محور سلامتی سے متعلق دوطرفہ تعاون تھا۔
اس دورے کے موقع پر دونوں ملکوں نے بغیر کسی تفریق کے اپنی اپنی حدود میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔
دریں اثنا پاکستانی دفتر خارجہ سے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ کچھ افغان عہدیداروں کی طرف سے صوبہ ہلمند میں جاری جھڑپوں کو پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروں سے جوڑنے کے الزامات قابل افسوس ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کی طرف سے جاری تحریری بیان میں افغان عہدیداروں کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا۔
ترجمان نے بیان میں کہا کہ ایک ایسے وقت جب مشترکہ چینلجوں سے نمٹنے میں پاکستان افغانستان سے سنجیدہ تعاون کی کوششوں میں مصروف ہے، اس طرح کے بیانات سے باز رہنا چاہیئے۔