پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں نیٹو کے فوجیوں کے لیے سازو سامان بھیجنے کا انتہائی اہم راستہ دوبارہ کھول دیا ہے۔
پاکستان سے ہو کر گزرنے والا یہ راستہ جسے جنوبی راستے کا نام دیا گیا ہے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کو ساز و سامان بھیجنے کا مختصر ترین اور سب سے سستا راستہ ہے۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سٹیتھ جانز کہتے ہیں کہ یہ جنوبی راستہ دراصل کئی سڑکوں پر مشتمل ہے۔ ’’ایک اہم سڑک وہ ہے جو کراچی کی بندر گاہ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ذریعے ایندھن اور دوسرا سامان روانہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ سڑک دوسری سڑکوں سے مل جاتی ہے۔ کچھ سامان کوئٹہ اور چمن سے ہو کر افغانستان کی سرحد کے پار صوبہ قندھار میں پہنچتا ہے۔ دوسری سڑکیں پشاور تک جاتی ہیں اور اس کے بعد درۂ خیبر سے ہو کر مشرقی افغانستان میں جلال آباد اور پھر کابل پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
لیکن یو ایس آرمی وار کالج میں قومی سلامتی کے ماہر سٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ ’’یہ دنیا کا انتہائی دشوار گذار علاقہ ہے اور بہت سے مقامات پر سڑک اتنی تنگ ہے کہ صرف ایک گاڑی ہی گذر سکتی ہے۔ لہٰذا یہاں ہر وقت حملوں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ بڑی خطرناک سڑک ہے۔‘‘
سٹیتھ جانزمتفق ہیں اس راستے کی بعض سڑکیں خطرناک ہیں۔ ’’مثلاً وفاق کے زیرِانتظام یعنی فاٹا کے ارد گرد کے علاقے جہاں یہ راستہ درۂ خیبر سے ہو کر گذرتا ہے، بہت سی ملیشاؤں کے کنٹرول میں ہے۔ اس راستے کے کچھ حصے منگل باغ کے کنٹرل میں ہیں۔ امریکہ کو انہیں پیسہ دینا پڑتا ہے اور بعض ملیشاؤں کو ٹرک والے پیسے دیتے ہیں تا کہ وہ انہیں ان کے علاقے سے گذرنے دیں۔ مختصر یہ کہ اس راستے پر کئی ملیشیائیں اور باغیوں کے گروپ، پاکستان میں اور سرحد پار افغانستان میں سرگرم ہیں اور ہر وقت ان کے حملوں کا ڈر لگا رہتا ہے۔‘‘
پاکستان نے حال ہی میں نیٹو کی سپلائی لائن دوبارہ کھولی ہے۔ سات مہینے پہلے امریکہ کی قیادت میں اتحادی فوج کے فضائی حملے میں غلطی سے 24 پاکستانی سپاہی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی تھی۔
پاکستانی عہدے دار چاہتے تھے کہ صدر براک اوباما اس واقعے پر معافی مانگیں، لیکن وہ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کو یہ کہنے پر مطمئن ہو گئے کہ پاکستانی ملٹری کا جو نقصا ن ہوا ہے، اس پر ہمیں افسوس ہے ۔
لیکن یو ایس آرمی وار کالج کے سٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے یہ اہم راستہ بند کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔
’’آج کل پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات زوروں پر ہیں۔ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ امریکہ ان کی سرزمین کو ان کی رضامندی کے بغیر استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کو حقیر سمجھتا ہے۔ حکومتِ پاکستان اور پاکستانی فوج یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ دہشت گردوں اور طالبان کی فورسز کو جو مدد مل رہی ہے اس کی ذمہ داری بڑی حد تک ان پر ہے کیوں کہ یہ لوگ افغانستان میں جنگ کے لیے پاکستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جب انہیں یہ بات یہاں امریکہ میں بتائی جاتی ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے ، اور وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم بھی جواب میں جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ استعمال کریں گے، اور ہوتا یہ ہے کہ انھوں نے افغانستان کو سامان کی فراہمی روک دی ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں کہ پاکستان کے اس راستے کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی ۔
لیکن وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس طرح اندازاً ہر مہینے دس کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی ۔ یہ رقم اب تک کہیں زیادہ طویل شمالی راستے پر خرچ کی جاتی رہی ہے۔ یہ شمالی راستہ بالٹک کے ملکوں سے ہوتا ہوا، روس اور وسطی ایشیا کے راستے افغانستان پہنچتا ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دونوں راستے سپاہی اور سازو سامان افغانستان سے باہر بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے، جب امریکہ اور نیٹو کے ممالک افغانستان سے اپنی فوجی موجودگی کو سمیٹنا شروع کریں گے۔
پاکستان سے ہو کر گزرنے والا یہ راستہ جسے جنوبی راستے کا نام دیا گیا ہے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کو ساز و سامان بھیجنے کا مختصر ترین اور سب سے سستا راستہ ہے۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سٹیتھ جانز کہتے ہیں کہ یہ جنوبی راستہ دراصل کئی سڑکوں پر مشتمل ہے۔ ’’ایک اہم سڑک وہ ہے جو کراچی کی بندر گاہ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ذریعے ایندھن اور دوسرا سامان روانہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ سڑک دوسری سڑکوں سے مل جاتی ہے۔ کچھ سامان کوئٹہ اور چمن سے ہو کر افغانستان کی سرحد کے پار صوبہ قندھار میں پہنچتا ہے۔ دوسری سڑکیں پشاور تک جاتی ہیں اور اس کے بعد درۂ خیبر سے ہو کر مشرقی افغانستان میں جلال آباد اور پھر کابل پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
لیکن یو ایس آرمی وار کالج میں قومی سلامتی کے ماہر سٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ ’’یہ دنیا کا انتہائی دشوار گذار علاقہ ہے اور بہت سے مقامات پر سڑک اتنی تنگ ہے کہ صرف ایک گاڑی ہی گذر سکتی ہے۔ لہٰذا یہاں ہر وقت حملوں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ بڑی خطرناک سڑک ہے۔‘‘
سٹیتھ جانزمتفق ہیں اس راستے کی بعض سڑکیں خطرناک ہیں۔ ’’مثلاً وفاق کے زیرِانتظام یعنی فاٹا کے ارد گرد کے علاقے جہاں یہ راستہ درۂ خیبر سے ہو کر گذرتا ہے، بہت سی ملیشاؤں کے کنٹرول میں ہے۔ اس راستے کے کچھ حصے منگل باغ کے کنٹرل میں ہیں۔ امریکہ کو انہیں پیسہ دینا پڑتا ہے اور بعض ملیشاؤں کو ٹرک والے پیسے دیتے ہیں تا کہ وہ انہیں ان کے علاقے سے گذرنے دیں۔ مختصر یہ کہ اس راستے پر کئی ملیشیائیں اور باغیوں کے گروپ، پاکستان میں اور سرحد پار افغانستان میں سرگرم ہیں اور ہر وقت ان کے حملوں کا ڈر لگا رہتا ہے۔‘‘
پاکستان نے حال ہی میں نیٹو کی سپلائی لائن دوبارہ کھولی ہے۔ سات مہینے پہلے امریکہ کی قیادت میں اتحادی فوج کے فضائی حملے میں غلطی سے 24 پاکستانی سپاہی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی تھی۔
پاکستانی عہدے دار چاہتے تھے کہ صدر براک اوباما اس واقعے پر معافی مانگیں، لیکن وہ وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کو یہ کہنے پر مطمئن ہو گئے کہ پاکستانی ملٹری کا جو نقصا ن ہوا ہے، اس پر ہمیں افسوس ہے ۔
لیکن یو ایس آرمی وار کالج کے سٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے یہ اہم راستہ بند کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔
’’آج کل پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات زوروں پر ہیں۔ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ امریکہ ان کی سرزمین کو ان کی رضامندی کے بغیر استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کو حقیر سمجھتا ہے۔ حکومتِ پاکستان اور پاکستانی فوج یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ دہشت گردوں اور طالبان کی فورسز کو جو مدد مل رہی ہے اس کی ذمہ داری بڑی حد تک ان پر ہے کیوں کہ یہ لوگ افغانستان میں جنگ کے لیے پاکستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جب انہیں یہ بات یہاں امریکہ میں بتائی جاتی ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے ، اور وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم بھی جواب میں جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ استعمال کریں گے، اور ہوتا یہ ہے کہ انھوں نے افغانستان کو سامان کی فراہمی روک دی ہے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں کہ پاکستان کے اس راستے کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی ۔
لیکن وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس طرح اندازاً ہر مہینے دس کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی ۔ یہ رقم اب تک کہیں زیادہ طویل شمالی راستے پر خرچ کی جاتی رہی ہے۔ یہ شمالی راستہ بالٹک کے ملکوں سے ہوتا ہوا، روس اور وسطی ایشیا کے راستے افغانستان پہنچتا ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دونوں راستے سپاہی اور سازو سامان افغانستان سے باہر بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے، جب امریکہ اور نیٹو کے ممالک افغانستان سے اپنی فوجی موجودگی کو سمیٹنا شروع کریں گے۔