رسائی کے لنکس

افغانستان میں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ ہیں: جنرل راحیل


افغانستان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد واقعات کے تناظر میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

پاکستان کی عسکری قیادت نے کہا ہے کہ ایسے میں کہ جب ان کا ملک افغانستان میں مصالحتی کوششوں میں سنجیدگی سے سہولت فراہم کر رہا ہے، وہ توقع کرتے ہیں کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

افغانستان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد واقعات کے تناظر میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

تاہم اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے اس موقف کا اعادہ کرتا آیا ہے کہ ایک مستحکم اور پرامن افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے بدھ کو جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ جنرل راحیل شریف نے عید کے موقع پر قبائلی علاقوں شمالی و جنوبی وزیرستان میں مامور فوجیوں سے ملاقات کی اور ان سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنے ملک کے اس عزم کا اعادہ کیا۔

جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی کو بھی اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا اور انھوں نے تمام متعلقہ فوجی کمانڈروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہدایت کی کہ وہ اس عزم کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے خلاف ٹھوس اقدام کریں۔

انھوں نے پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی کے لیے کی جانے والی کوششوں اور رابطوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں امن و استحکام ان کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ طورخم پر مئی اور پھر جون کے مہینے میں دونوں جانب انتہائی کشیدگی دیکھنے میں آئی جب کہ اس دوران دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جانی نقصان کا سبب بھی بنا۔

فائرنگ کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان نے سرحد پر اپنی جانب ایک گیٹ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ افغانستان کو اس گیٹ کی تعمیر پر اعتراض تھا۔

پاکستانی عہدیداروں کا موقف تھا کہ سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے یہ اقدام ضروری ہے جو کہ دونوں ملکوں کی سلامتی کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان شدت پسند گروپ داعش سے وابستہ جنگجوؤں کو افغانستان میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ لیکن اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا کہ ایسے بیانات سے صرف افغانستان میں امن اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے والے عناصر کو ہی فائدہ پہنچے گا۔

XS
SM
MD
LG