افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ اب ٹرانزٹ تجارت کے حوالے سے اُن کے ملک کا انحصار صرف پاکستان پر نہیں ہے۔
اُنھوں نے یہ بات امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سینیٹر فار اسٹراٹیجک اسٹیڈیز (سی ایس آئی ایس) میں منعقدہ ایک تقریب کے موقع پر اپنے خطاب کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے کی۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے افغانستان ماضی میں پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کی بندرگاہ پر ہی انحصار کرتا تھا، لیکن اُن کے بقول اب یہ صورت حال نہیں ہے کیوں کہ افغانستان اب ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو بھی استعمال کرتا ہے۔
پاکستان کی طرف سے اس بارے میں ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے بانی صدر زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے تاجروں کے لیے پاکستان ہی کے راستے موزوں ہیں۔
’’چابہار میں اور پاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ کرنے میں بڑا فرق ہے، ایک تو راستے میں بڑا فرق ہے۔ جب سفر بڑھے گا تو آپ کا خرچ بڑھے گا۔ اس وقت افغانستان کے لیے قریب ترین کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہیں ، اس کے بعد جب گوادر بن جائے گا تو وہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹرید کے لیے قریب اور سب سے قابل عمل بندر گاہ ہو گی، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘‘
واضح رہے کہ بھارت نے بھی چابہار میں ایرانی بندرگاہ کی توسیع وترقی میں سرمایہ کاری کی اور اس بندرگاہ کو پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ تجارت کے اہم ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی بھارت سے ایران کی بندرگاہ چابہار کے راستے بھیجی جانے والی گندم کی پہلی کھیپ افغانستان پہنچی تھی۔
پاکستان نے زمینی راستے سے بھارت کو براہ راست افغانستان کے لیے تجارت کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد متبادل راستہ اختیار کیا۔
پاکستان افغانستان کو تجارت کے لیے کراچی کی بندرگاہ کی سہولت فراہم کر رہا ہے لیکن سلامتی سے متعلق تحفظات کی بنا پر زمینی راستے سے افغانستان کو بھارت کے ساتھ براہ راست تجارت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
افغانستان یہ کہہ چکا ہے کہ اگر پاکستان اس کے ٹرکوں کے لیے یہ اجازت نہیں دے گا تو وہ بھی پاکستان کو اپنے ملک سے براہ راست وسطی ایشیا تک مال لانے اور لے جانے کے لیے اپنے زمینی راستوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔