پاکستان اور افغانستان کے ٹرانسپورٹرز طورخم کے راستے آمدورفت کے لیے ویزے سے استثنیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس پیش رفت کو دو طرفہ تجارت کے لیے ایک اچھا شگون قرار دے رہے ہیں۔
طورخم دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم زمینی گزرگاہ ہے اور حالیہ مہینوں میں یہاں کشیدگی کے باعث متعدد بار دوطرفہ نقل وحرکت بند ہونے کی وجہ سے سامان تجارت لانے اور لے جانے والوں کو شدید مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
ویزے سے استثنیٰ کا فیصلہ دونوں اطراف کے سرحدی امور کے ذمہ دار حکام کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے ٹرانسپورٹرز کے ہونے والے اجلاسوں کے بعد کیا گیا۔
خیبر ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر آفریدی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کی طرف سے شمشاد ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کا 25 رکنی وفد اجلاس میں شریک ہوا، جب کہ چند دن قبل ایسا ہی اجلاس جلال آباد میں افغان قانون ساز کے گھر پر بھی ہوا تھا۔
فیصلے سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب کے ٹرک ڈرائیور اور کنڈیکٹر ویزے سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن ان کے علاوہ کوئی تیسرا شخص بغیر ویزے کے ان کی گاڑی پر سوار ہوا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
"تجارت پر بڑا اثر پڑ جاتا ہے، ہم دونوں ملکوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ٹرانسپورٹرز کے ساتھ نرمی کرو، کیونکہ ان پر جب اثر پڑتا ہے تو تجارت پر بہت زیادہ اثر پڑ جاتا ہے اور حکومت کا بھی نقصان ہوتا ہے سب کا نقصان ہوتا ہے۔"
رواں سال مئی اور پھر جون میں طورخم سرحد دو مرتبہ کئی روز تک بند رہی جس کی وجہ یہاں ہونے والی غیرقانونی نقل و حرکت اور سرحد کی موثر نگرانی سے متعلق اقدام پر دونوں جانب اتفاق کا نہ ہونا تھا۔
گزشتہ ماہ طورخم سرحد پر پاکستان نے اپنی جانب ایک گیٹ کی تعمیر شروع کی تھی اور حکام بقول یہ سرحد پار سے آنے والوں کو باقاعدہ جانچ پڑتال کے بعد ملک میں داخلے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
تاہم افغان حکام نے اس گیٹ کی تعمیر پر اعتراض کیا اور کشیدگی بڑھنے کی صورت میں سکیورٹی فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوا تھا۔
بعدا ازاں سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں جانب کے اعلیٰ سطحی رابطوں سے طورخم سرحد کھول دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ آئندہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کا ایک اہم اجلاس کابل میں ہو گا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کریں گے۔
اس اجلاس میں دوطرفہ سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور پر بات چیت کی جائے گی۔