پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں طالبان حکومت سے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کی طرف سے پاکستان کے اس مطالبے پر تاحال کوئی ٹھوس جواب سامنے نہیں آیا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری بڑھ رہی ہے اور اب پاکستان کی بھی مایوسی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران یہ مطالبہ دہرایا تھا کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ اس سے قبل پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم اور دیگر اعلٰی حکام بھی مسلسل طالبان حکومت پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں دہرایا گیا ہے جب پاکستان میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔
پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں۔
طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔
'بات چیت ہی مسئلے کا حل ہے'
افغان اُمور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مسائل کا حل بات چیت میں ہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاکستان کی سرحد سے دُور منتقل کرنے کا کہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کم نہیں ہوئے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب طالبان حکومت پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
سیکیورٹی اُمور کے ماہر بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ اب طالبان حکام نے بھی پاکستان کو یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ سیکیورٹی کی ذمے داری پاکستان کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر طالبان حکومت کے اقدامات سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے دباؤ کے باوجود افغان طالبان، پاکستانی طالبان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے کیوں کہ دونوں تنظیمیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
اُن کے بقول نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں خلاف جنگ میں بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے افغان طالبان کا ساتھ دیا تھا۔
طاہر خان کے بقول زور زبردستی یا تلخی کے بجائے یہ معاملات بہتر سفارت کاری اور بات چیت سے ہی حل ہوں گے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ افغانستان میں مبینہ ٹھکانوں کے بارے میں شواہد افغان حکام کے ساتھ شئیر کیے ہیں۔ لہذٰا پاکستان توقع کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہو گی۔
افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف ممکنہ کارروائی کی رپورٹس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر اس کارروائی کا خیر مقدم کیا جائے گا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی اور آخر کار یہ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔
کیا پاکستان مایوس ہو رہا ہے؟
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ جب افغانستان میں ایک جامع حکومت بن جائے گی تو معاملات بہتری کی طرف جائیں گے۔
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان موجودہ کابل انتظامیہ سے مایوس ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول شاید پاکستان کو یہ واضح ہو گیا ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے پاکستان کے حالیہ بیانات پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن ترجمان ذبیح اللہ مجاہد قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں امن کی ذمے داری افغانستان پر عائد نہیں ہوتی اور نہ ہی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
فورم