پاکستان میں نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی اور ایڈز کے شکار افراد کی درست تعداد جاننے اور اس مرض میں مبتلا افراد میں آگاہی پید ا کرنے کے لیے فروری کے اواخر سے ایک ملک گیر سروے کا آغاز کیا جارہا ہے ۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس مرض کے شکار افرادکی تعداد معلوم کرنے کے لیے یہ سب سے بڑا سروے ہوگا اور اس کے لیے چاروں صوبوں کے23 شہروں کو منتخب کیا گیا ہے ۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرا م کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر فرحان ایمینیول نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سروے کے لیے اُن شہروں کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں اس وائرس کے پھیلنے کے امکان زیادہ ہیں اور لگ بھگ 23ہزار لوگوں کے خون کے نمونے لے کر جائزہ رپورٹ تیار کی جائے گی۔
ایڈز کے مرض پر قابو پانے کے خصوصی قومی ادارے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کے مرض میں مبتلامریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے اور گذشتہ سال کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 97400 افراد اس مرض کا شکار ہیں لیکن ان میں سے رجسٹر ڈ مریضوں کی تعداد محض چار ہزار ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا شکار افراد کو ایڈز میں مبتلا ہونے میں 8 سے 10سال لگتے ہیں اور اس کے بعد اُنھیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم حکام اس تشویش کا اظہارکر رہے ہیں کہ ملک میں ایچ آئی وائرس اور ایڈز کے شکار افراد اب بھی اس بیماری کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں جس کے باعث نہ صرف وہ خود علاج سے دور رہتے ہیں بلکہ وہ اس بیماری کو دوسرے افراد تک منتقل کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُن کے محکمے کی طرف سے اس مرض کے بارے میں آگاہی مہم اور کوششوں کے باوجود اب بھی لوگ خوف اور بدنامی کے باعث اس بیماری کا نہ تو اپنے معالج اور نہ ہی اہل خانہ سے اظہار کرتے ہیں جس کے باعث اس مرض میں مبتلا افراد کی رجسٹریشن میں حکومت کواب تک وہ کامیابی نہیں مل سکی ہے جس کے لیے وہ کوشاں ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق ملک میں 14 ایسے خصوصی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں ایچ آئی وی اور ایڈز میں مبتلا افراد کی تشخیض اور اُنھیں علاج مہیا کیا جاتا ہے۔ ایڈز سے بچاؤ کے خصوصی پاکستانی ادار ے کے عہدیداروں کا کہنا ہے پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک بڑی
وجہ نشے کے عادی افراد میں استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال بتائی جاتی ہے۔