اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے حزبِ مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی چار مختلف مقدمات میں ضمانت منظور کر لی ہے۔
یہ مقدمات ان کی جماعت کے 2014ء میں اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور سرکاری ٹی وی کی عمارتوں پر حملے اور ایک سینئر پولیس افسر پر تشدد کے واقعات پر قائم کیے گئے تھے۔
منگل کو اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کا ان مقدمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا جب کہ تشدد کا نشانہ بننے والے سینئر پولیس افسر عصمت اللہ جونیجو نے بھی اپنے بیان میں عمران خان کا نام نہیں لیا۔
لیکن وکیلِ استغاثہ کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ اور احتجاج میں شامل پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری اپنی تقاریر میں مظاہرین کو تشدد پر اکساتے رہے جس کا نتیجہ پی ٹی وی اور پارلیمان کی عمارتوں اور سینئر پولیس افسر پر تشدد کی صورت میں نکلا۔
انھوں نے اس ٹیلی فونک گفتگو کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا جس میں تحریکِ انصاف کے ایک رہنما عارف علوی عمران خان کو پی ٹی وی پر ہونے والے حملے کی اطلاع دیتے ہیں۔
اس پر بابر اعوان نے استفسار کیا کہ یہ ریکارڈنگ کس قانون کے تحت کی گئی؟ ان کے بقول یہ مقدمات سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بنائے گئے جب کہ دھرنے کا مقصد انتشار پھیلانا نہیں بلکہ عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر پہلے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد میں تحریکِ انصاف کے سربراہ کی ضمانت منظور کر لی۔
عمران خان ان مقدمات کی سماعت کے دوران ماضی میں عدالت میں پیش نہیں ہورہے تھے جس پر عدالت نے انھیں اشتہاری بھی قرار دیا تھا۔