رسائی کے لنکس

لاپتا افراد کی مکمل تفصیل سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم


سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ وہ ان تمام "لاپتا" افراد کی فہرست اور ان کے جرائم سے متعلق تفصیلی معلومات عدالت میں پیش کرے جو اس کی حراستی مراکز میں موجود ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ان تمام افراد کا تفصیلی ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو سرکاری تحویل میں ہیں اور ان کے بارے میں ان کے خاندانوں کو علم نہیں ہے۔

یہ حکم جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر جمعرات کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سماعت شروع کرتے ہوئے دیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ وہ ان تمام "لاپتا" افراد کی فہرست اور ان کے جرائم سے متعلق تفصیلی معلومات عدالت میں پیش کرے جو اس کی حراستی مراکز میں موجود ہیں۔

مزید برآں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وزارت کی رپورٹ میں یہ وضاحت بھی شامل ہونی چاہیے کہ ان افراد کو کیوں برسوں تک بغیر عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھا گیا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے پاکستان میں لاپتا افراد سے متعلق معاملات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس کے مطابق مارچ 2011ء سے اب تک کمیشن میں 4229 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 2939 نمٹائے جا چکے ہیں۔

تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ اب بھی لوگ جبری طور پر حکام کی تحویل میں ہیں۔

بینچ نے حکم دیا کہ حراستی مراکز میں بند تمام افراد کو ایک ہفتے کے اندر اندر ان کے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

اس درخواست پر اب آئندہ سماعت 13 نومبر کو ہوگی۔

لاپتا افراد کے اہلِ خانہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان جبری گمشدگیوں کے پیچھے انٹیلی جنس اور سکیورٹی ادارے ملوث ہیں تاہم حکام ان کی تردید کرتے ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی لاپتا افراد کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال نے کہا تھا کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں قابلِ ذکر کمی ہوئی ہے اور جب تک یہ کمیشن اپنا کام مکمل نہیں کر لیتا وہ اس کی سربراہی سے سبکدوش نہیں ہوں گے۔

جاوید اقبال کو رواں ماہ ہی قومی احتساب بیورو کا چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے جب بھی انٹیلی جنس حکام کو جواب کے لیے طلب کیا تو وہ پیش ہوتے رہے ہیں لہذا الزامات سے متعلق اگر ثبوت موجود نہیں ہوتے تو وہ کیسے کسی کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG