پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف 1976 میں فوج میں شامل ہوئے اور نومبر 2013ء میں اُنھوں نے بطور 15 ویں چیف آف آرمی اسٹاف کے ملک کی طاقتور فوج کی کمان سنبھالی۔ سابق فوجی عہدیدار اور دفاعی اُمور پر نظر رکھنے والے بیشتر مبصرین جنرل راحیل شریف کو ایک ایسے پیشہ ور فوجی کے طور پر جانتے ہیں جو ملک کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے اور اُن کے مرحوم بڑے بھائی میجر شبیر شریف کو پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’نشان حیدر‘ سے بھی نواز جا چکا ہے۔
بری فوج کی قیادت سنھبالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان اور اُن کے اتحادی گروہوں کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔
اس بھرپور آپریشن سے قبل ایک تقریب سے خطاب میں جنرل راحیل شریف نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ فوج ملک میں امن کی بحالی کے عزم پر قائم ہے۔
’’یہ ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل تمام عناصر غیر مشروط طور پر ملک کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت قبول کریں۔ بصورت دیگر ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے غیور عوام اور افواج پاکستان میں ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی سابقہ سیاسی اور عسکری قیادت کئی سال سے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کرنا چاہتی تھی لیکن شدت پسندوں کی طرف سے ممکنہ ردعمل کے خدشے کے باعث وہ ایسا کرنے سے ہچکچاتے رہے۔
فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل (ریٹائرڈ) اطہر عباس کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا درست فیصلہ کیا۔
’’وہ (جنرل راحیل شریف) مقصد کو حاصل کرنا جانتے ہیں، میں اُنھیں انتہائی محب وطن، راست گو، بااصول انسان سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ ایسی چیز ہے جس کا بیرونی دنیا بھی اعتراف کرتی ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پاکستان کے امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے تعلقات میں نئی شروعات ہوئی ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ جنرل راحیل شریف نا صرف اندرونی بلکہ عالمی حالات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں اور اُنھیں اپنی فوج کی طاقت اور کمی دونوں کا پوری طرح ادراک ہے۔
’’جو سانحہ پشاور ہوا ہے، اس کے بعد جس طرح آپ کے آرمی چیف نے نا صرف جو ایکشن لیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی ساتھ رکھا ہے یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔‘‘
نومبر 2014 میں جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف امریکہ کا پہلا دورہ کیا، جہاں اُن کی اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈروں اور اوباما انتظامیہ کے عہدیداروں کے علاوہ اراکین کانگریس سے بھی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا۔
’’آپ نے دیکھا کہ تمام ہی اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی (جنرل راحیل شریف) سے ملاقاتیں ہوئیں اور حتیٰ کہ وزیرخارجہ جان کیری سے اُن کی ملاقات کے لیے دورے کی مدت بھی بڑھا دی گئی۔ اس سے امریکہ کی سنجیدگی اور پاکستان کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اس لیے ہم دنوں ملکوں کی افواج کے درمیان تعلقات میں بہتری کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کے درمیان بھی (بہتری) دیکھتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے دنوں ملکوں کو ایک دوسرے کا موقف سمجھنے میں مدد ملی۔
’’یہ ایک خوش آئند دورہ تھا اور اس کی دو تین بنیادی وجوہات ہیں، پہلی بات تو یہ ہے جو فاصلے آپ براہ راست (مل کر) کم کر سکتے ہیں وہ محض خط و کتابت سے نہیں ہو سکتے اور نا ہی کسی کی زبانی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ (اس لیے اس دورے نے دونوں ملکوں) کے اداروں کے درمیان تعاون کو بہتر کرنے میں بڑا اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔‘‘
بری فوج کی قیادت سنبھالنے سے قبل جنرل راحیل شریف نے پاکستانی فوج میں بطور انسپکٹر جنرل (ٹریننگ اینڈ ایولیوایشن) دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی تربیتی کورس بھی مرتب کیے، جو ماضی میں فوج کی روایتی ٹریننگ یعنی تعلیم و تربیت کا حصے نہیں تھے۔