شدت پسند تنظیموں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ان تنظیموں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔
بدھ کو پاکستانی فوج کی طرف سے شدت پسند تنظیموں کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک وڈیو اعترافی بیان جاری کیا گیا جس میں اس نے ان تنظیموں کی سرگرمیوں اور خود کو "رضاکارانہ" طور پر پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کی تفصیل بتائی۔
رواں ماہ ہی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا ہے۔
تقریباً چھ منٹ پر محیط یہ وڈیو تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئی جس میں احسان اللہ احسان نے بتایا کہ اس کا اصل نام لیاقت علی اور تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔
"میں 2008ء میں تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہوا۔ اس وقت میں کالج کا طالب علم تھا۔" اس نے شدت پسند تنظیموں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ " میں نے ان نو سالوں میں ٹی ٹی پی کی بہت سی سرگرمیاں دیکھیں۔"
افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی معاونت کا دعویٰ
بیان میں احسان اللہ احسان نے دعویٰ کیا کہ ان شدت پسند تنظیموں کو افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل ہے جو ان دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہیں اور مقررہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
"فوجی آپریشن کے بعد ہم لوگ افغانستان چلے گئے، میں نے وہاں دیکھا کہ ان لوگوں کے 'را' اور 'این ڈی ایس' کے ساتھ تعلقات بڑھے اور انھوں نے ان لوگوں کو مدد دی مالی معاونت فراہم کی اور اہداف بھی دیے، ہرکارروائی کی قیمت وصول کی جاتی۔"
سابق شدت پسند ترجمان نے بتایا کہ جب انھوں نے عسکریت پسند کمانڈر عمر خالد خراسانی سے کہا کہ ان خفیہ ایجنسیوں سے مدد لے کر ہم "کفار کی مدد کر رہے ہیں"، تو ان کے بقول خراسانی کا کہنا تھا کہ "پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے کے لیے اگر اسرائیل بھی مجھے مدد دے گا تو میں مدد لے لوں گا۔"
اس نے مزید بتایا کہ ان شدت پسندوں کو افغانستان میں تذکرے جاری کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے ہیں۔ افغانستان میں شناختی دستاویزات کو تذکرہ کرتے ہیں۔
افغانستان یا بھارت کی طرف سے سابق پاکستانی شدت پسند کے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن پاکستان یہ الزامات عائد کرتا رہا ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ کابل اپنے ہاں موجود ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
کابل اور نئی دہلی دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
احسان اللہ احسان نے تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ ملا فضل اللہ کو اپنے مقاصد کے لیے اسلام کا نام استعمال کرنے والا قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ایک ایسا شخص جو قرعہ اندازی سے لیڈر بنا اس سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں، اور آپ فضل اللہ سے کیا توقع کر سکتے ہیں جس نے اپنے استاد کی بیٹی سے زبردستی شادی کی اور اسے لے کر چلا گیا۔ اس طرح کے لوگ اسلام کی خدمت کے لیے موزوں نہیں۔"
اس کے بقول حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کی قیادت کے لیے جب عمر خالد خراسانی، خالد سید سجنا اور ملا فضل اللہ کے ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا تو اس کا فیصلہ ایک قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا۔
شدت پسندوں کی بھرتی کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا
شدت پسندوں کی طرف سے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے طریقے کے بارے میں احسان اللہ احسان نے بتایا کہ یہ تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں۔
"انھوں (شدت پسندوں) نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر کم عمر نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کو ورغلایا اسلام کے نام پر، اسلام کی غلط تشریح کر کے پیغامات سوشل میڈیا پر شیئر کیے۔"
ان کے بقول شدت پسندوں میں ایک مخوص طبقہ لوگوں کو گمراہ کرنے، تاوان کے لیے اغوا کرنے اور معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے میں ملوث ہے۔
احسان کا کہنا تھا کہ یہ قطعی طور پر اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں اور اس کے بقول یہ سب دیکھنے کے بعد اس نے یہ راستہ ترک کر کے خود کو رضاکارانہ طور پر حکام کے حوالے کیا اور اب لوگوں کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ شدت پسندوں کے پروپیگنڈے میں مت آئیں۔
حالیہ مہینوں میں پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ شدت پسند خاص طور پر نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کا کر رہے ہیں اور ایسے واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں جن میں بہت سے لوگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ہی ایسے لوگوں سے واقفیت بڑھا کر شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے۔