پاکستان کی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ان کے ملک نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سرحد پار افغانستان میں یہ خطرہ اب بھی موجود ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عرب نیوز سے ایک انٹرویو میں ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں کارروائیاں کر کے ان تمام علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا ہے جو کسی وقت عسکریت پسندوں کے زیر اثر ہوا کرتے تھے۔
"بدقسمتی سے سرحد پار افغانستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں (افغان) حکومت کی عملداری نہیں ہےجس کی وجہ افغان فورسز کی ناکافی استعداد کار اور بین الاقوامی افواج کی تعداد میں کمی ہے، لہذا معاملہ اب افغانستان میں ہے جہاں یہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔"
ترجمان آصف غفور نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر پائیدار امن کے لیے افغانستان کی طرف سے کوششوں کا کامیاب ہونا بھی ضروری ہے۔
کابل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام آباد ان عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان میں تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال کر رہے ہیں، جب کہ امریکہ کی طرف سے بھی پاکستان سے ایسے ہی مطالبات کے ساتھ دباؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کی منظم موجودگی نہیں ہے اور اس کا اصرار ہے کہ سرحد کی موثر نگرانی کے لیے افغان اور بین الاقوامی فورسز ٹھوس کردار ادا کریں تاکہ دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
مبصرین دونوں ملکوں پر زور دیتے آ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تعاون اور اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دیں وگرنہ اس کشیدگی کا فائدہ شر پسند عناصر اٹھائیں گے جو کہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔
سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار طلعت مسعود نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بہت ضروری ہے کہ دونوں ملک بات چیت کریں اور اپنے تحفظات کا تبادلہ کریں، اگر وہ (کابل) کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ ان سے پوچھے کہ وہ ان جگہوں کی نشاندہی کرے۔ افغانستان کے لیے پاکستان بہت اہم ہے اور اسی طرح پاکستان کے لیے بھی پرامن افغانستان بہت ضروری ہے۔"
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی شروع کر رکھا ہے جو عہدیداروں کے بقول رواں سال کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا۔