پاک فوج کے ترجمان ادارے، انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) وہ حد عبور نہ کرے کہ ’’ریاست کو زور لگانا پڑے؛ اور اپنی رٹ قائم کرنی پڑے‘‘۔
ترجمان پاکستان فوج نے کہا ہے کہ ’’امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے تو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘؛ اور یہ کہ ’’پاکستان افغان مفاہمتی عمل کے لیے ہر ممکن تعاون کر رہا ہے۔‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’پی ٹی ایم‘ کے آغاز میں تین مطالبات تھے، جن میں چیک پوسٹوں کا خاتمہ، بارودی سرنگوں کا خاتمہ اور لاپتا افراد کی بازیابی کا کہا گیا۔ اس حوالے سے ’کے پی‘ میں 469 چیک پوسٹیں تھیں جو اب کم ہو کر 331 ہوگئی ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’افغانستان کی طرف سے یقین دہانی ہو جائے تو چیک پوسٹیں مزید کم کریں گے۔ افغان سرحد پر ان کی انتظامیہ کا کنٹرول نہیں۔ اسی لیے باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی43 ٹیمیں کام کر رہی ہیں‘‘۔
ڈی جی، آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’ہماری تحقیقات جاری ہیں کہ پی ٹی ایم کیسے چل رہی ہے۔ بہت جلد بتائیں گے پی ٹی ایم کیسے چل رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے کہا پی ٹی ایم پر پاک فوج نے ہلکا ہاتھ رکھا ہے۔ ہم نے پی ٹی ایم سے بات چیت کی۔ پی ٹی ایم نے کچھ غلط باتیں ضرور کیں۔ لیکن ابھی تک پرتشدد کارروائیاں نہیں کیں۔ پی ٹی ایم سے درخواست ہے ان کے مطالبات پر کام ہو رہا ہے۔ احساس ہے، پی ٹی ایم کے لوگ دکھی لوگ ہیں، جو دہشت گردی سےمتاثرہ ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’پی ٹی ایم وہ لائن کراس نہ کرے جس کے بعد طاقت کا استعمال کرکے کنٹرول کرنا پڑے۔ پی ٹی ایم جس طرف جا رہی ہے، لگتا ہے ریاست کو اتھارٹی استعمال کرنا پڑے گی‘‘۔
افغان مفاہمتی عمل
افغانستان کے حوالے سے، ڈائریکٹر جنرل، آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان جیسی جنگ نہیں لڑی گئی۔ پاکستان شروع سے ہی کہتا رہا ہے کہ افغانستان کا فوجی نہیں سیاسی حل نکالا جائے گا۔ افغانستان میں امن جنگ سے نہیں بات چیت سے ممکن ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں امن کیلئےجتنی سہولت دے سکتے ہیں فراہم کریں گے۔ افغانستان میں بہت تباہی ہوئی ہے۔ افغانستان میں مفاہمتی عمل بہت ضروری ہے۔ امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے گا تو اس سے خطے کو بہت فائدہ ہوگا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ ناکام نہیں بلکہ امریکہ سے سرخرو ہو کر نکلے‘‘۔
لائن آف کنٹرول کی صورتحال
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’بھارت کی جانب سے سیز فائرکی خلاف ورزی کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔ دو سالوں میں ایل او سی پر سیزفائر کی خلاف ورزی میں اضافہ ہوا ہے۔ سیز فائر کی خلاف ورزیاں2017 اور 2018 میں زیادہ ہوئیں۔ بھارت کی جانب سےسیز فائرکی خلاف ورزی کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے، 2018 میں55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے۔ تاریخ میں سیز فائر کی خلاف ورزی میں سب سے زیادہ شہادتیں رواں سال ہوئیں‘‘۔
کرتار پور راہداری
فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولی گئی۔ پاکستان کا کرتارپور راہداری کھولنا دوستی کی طرف قدم ہے، کرتارپور راہداری میں انٹری پوائنٹ سے ’فینس‘ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کرتارپور راہداری ’ون وے منصوبہ‘ ہے، جس میں سکھ یاتریوں کی آمد ہوگی۔ منصوبے کے تحت 4000 سکھ یاتری روزانہ پاکستان آسکیں گے۔ لیکن پاکستان کی طرف سے بھارت جانے کے لیے یہ راستہ استعمال نہیں ہوگا۔
انہوں نے بھارت کے رویے کے بارے میں کہا کہ ’’بھارت کی جانب سے اس منصوبہ پر منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے‘‘۔
پاکستان کے نازک دور، ذمہ دار کون؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن، اب نازک دور سے چلتے ہوئے ہم آگے کی جانب آگئے ہیں۔ ہم نے جنگی لڑ لیں۔ آدھا ملک گنوا دیا اور ایٹمی قوت بھی بن گئے۔ بھارت کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں۔ کشمیر کا معاملہ بھی حل نہ ہوا۔ ملک کے کتنے نازک دور آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوچنا ہے۔ ہماری فالٹ لائنس میں معیشت، کمزور گورننس، عدالتی و تعلیمی نظام، مذہب و فرقہ ورانہ اشتعال انگیزی شامل ہیں۔ ہم خود اس میں پڑے اور دشمن نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ آج ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ آج کی پاکستانی فوج کل کی فوج نہیں ہے۔ لیکن، پچھلے 70 سال کے مد و جزر میں رہیں گے تو آگے نہیں جا سکتے۔ ملک کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں۔‘‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’’جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹرشپ؛ اور جمہوریت میں باریاں لینا۔۔۔ اِن ایشوز کو دیکھنا ہوگا۔ مسائل کیوں ہیں اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کبھی مسلک تو کبھی مذہب کے نام پر لڑوایا گیا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’پاک فوج میں 2 سال میں 400 افسران کو مختلف جرائم پر سزائیں ہوئیں۔ فوج میں بھی قانون کے مطابق سزائیں دی جاتی ہیں۔ فوج میں ایک فوجی افسر کو10 ہزار کی کرپشن پر گھر بھیج دیا گیا تھا‘‘۔
میڈیا کا کردار
انھوں نے مزید کہا کہ آپریشن ’ضرب عضب‘ اور ’ردالفساد‘ میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ میڈیا فرسٹ لائن آف ڈیفنس ہے، ففتھ جنریشن وار میں میڈیا فرسٹ لائن آف ڈیفنس ہے۔ خطرے سے متعلق آگاہی، مسائل کی نشاندہی میں میڈیا کا کردار ہے، کوئی بھی جملہ لکھنے سے پہلے اس کو مکمل سن لینا چاہیے‘‘۔
کسی اور کی جنگ اب نہیں لڑیں گے
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم کے بیان کو مکمل سن لینا چاہیے، سیکیورٹی سےمتعلق کوئی بھی حکومت سیکیورٹی ان پٹ لیتی ہے۔ ملک بھر میں کئی آپریشن ہوئےحکومت کی ہدایت پر ہوئے۔ دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے سے متعلق کام کیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر بہت سی جگہوں پر عمل ہوگیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر جہاں کام نہیں ہوا وہاں کام تیز بھی ہوا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے۔ افغانستان میں جنگ لڑی گئی تو ’ٹی ٹی پی‘ بن گئی اور ہمیں جنگ لڑنا پڑی۔ ہم نے ’ٹی ٹی پی‘ کا خاتمہ کیا تو افغانستان میں دوبارہ دہشت گردی نے سر اٹھایا‘‘۔