صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں پیر کو احمدیہ برادری کی ایک عبادت گاہ پر لگ بھگ ایک ہزار مشتعل افراد نے دھاوا بول کر وہاں موجود افراد کے خلاف نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ پیر کو ملک بھر میں پیغمبر اسلام کی ولادت کی مناسبت سے ’عید میلادالنبی‘ کے سلسلے میں ریلیاں اور جلوس نکالے گئے۔
ایسی ہی ایک ریلی میں شریک افراد نے ضلع چکوال کے علاقے ڈومیلی میں احمدیہ برادری کے زیر استعمال ’بیت الذکر‘ کا رخ کیا۔
جماعت احمدیہ کے مرکزی ترجمان سلیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مظاہرین کا کہنا تھا یہ مسجد تاریخی طور پر مسلمانوں کی تھی اس لیے اس کو خالی کر کے اُن کے حوالے کر دیا جائے۔
تاہم چکوال کی ضلع انتظامیہ کے مطابق مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر حکومت پنجاب کے اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’اب تک کی تحقیقات کے مطابق دو گروپوں میں غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔ ہوم ڈپارٹمنٹ بغور صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘‘
1970ء کی دہائی میں پاکستان کے آئین میں احمدیہ برادری کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس فرقے کے لوگ امتیازی سلوک کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ پیر کو جب حملہ کیا گیا تو اُس وقت پولیس تو وہاں تعینات تھی لیکن وہ بڑی تعداد میں مظاہرین کو کنٹرول نہیں کر سکی۔
’’ہزار کے قریب لوگ تھے اُنھوں نے آ کر حملہ کیا اور پولیس نے ہمارے بندوں کو وہاں سے نکال لیا اور عملاً مظاہرین نے طاقت کے زور پر (عمارت پر) قبضہ کر لیا۔۔۔۔ پولیس تو صبح سے تھی لیکن تھوڑی تھی وہ ان کو اُس طرح کنٹرول نہیں کر پائی تھی۔‘‘
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ واقعہ کے دوران احمدیہ برادری کے کسی شخص کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ضلعی پولیس سے رابطہ کر کے اس بارے میں تازہ صورت جاننے کے لیے متعدد بار کوشش کی گئی لیکن اعلیٰ ضلعی پولیس عہدیداروں سے براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا جب کہ اُن دفاتر میں تعینات اہلکاروں نے اس بارے میں بات کرنے سے معذرت کی۔
مقامی لوگوں کو کہنا ہے کہ علاقے میں موجود احمدیہ برادری کے لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں تاہم اب صورت حال معمول پر آ رہی ہے۔
اُدھر پیر کی صبح لاہور میں ’قومی سیرت کانفرنس‘ سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پیغمبر اسلام نے اپنی تعلیمات میں انسانیت کے احترام پر زور دیا۔
وزیراعظم نوازشریف نے علما پر زور دیا کہ وہ معاشرے سے انتہا پسندی کے اسباب کے خاتمے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔
’’گزشتہ سالوں میں اسلام کے نام پر اللہ کی زمین میں فساد پھیلایا گیا، اختلاف رائے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری تین سال کی مسلسل کوشش سے فساد کا دروازہ بڑی حد تک بند ہو گیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے مراکز تقریباً ختم کر دیئے گئے ہیں۔
’’تاہم اس بات کی ضرورت باقی ہے کہ اس انتہا پسندی کا راستہ بھی بند ہو جائے جس کی اساس مذہب کی اُن خود ساختہ تعبیرات میں ہے، جو دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔ یہ کام علما کو کرنا ہے، یہ کام اہل دانش کو کرنا ہے اُنھیں اسلام اور امن کا تعلق دوبارہ پیدا کرنا ہے۔‘‘
اس کانفرنس کے موقع پر ایک مشترکہ اعلامیے میں تمام عقائد کے علما سے کہا گیا کہ وہ متنازع بیانات دینے اور تقاریر سے اجتناب کریں اور مذہبی معاملات مذاکرات اور مشاورت سے حل کرنے پر زور دیا گیا۔
’عید میلادالنبی‘ کی مناسبت سے نکالی گئی ریلیوں کے موقع پر ملک بھی سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے گئے تھے۔