پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے ’ربوہ‘ میں احمدیہ برادری کے مرکز پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے چھاپے پر احمدی برادری اور انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
احمدیہ برادری کے ترجمان سلیم الدین نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چھاپے کے دوران چار افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی فورس کی طرف سے ایک جریدے ’تحریک جدید‘ اور شمارے 'الفضل' کی اشاعت پر چھاپہ مارا گیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک ترجمان نے تحریری بیان میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت پنجاب کی طرف سے 2004 میں ماہانہ ’تحریک جدید‘ کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی تھی جب کہ روزنامہ الفضل کو بھی پنجاب حکومت نے 2011 میں بند کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ترجمان کے مطابق صوبائی حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود اُنھیں یہ شکایت ملی کہ دونوں شماروں کی اشاعت جاری تھی اور اسی بنا پر یہ کارروائی کی گئی اور چار افراد کو حراست میں لیا گیا، جن سے تفتیش جاری ہے۔
لیکن احمدیہ برادری کے ترجمان کے مطابق ان شماروں کی اشاعت پر پابندی کے خلاف اُنھوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا اور یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے اُن کے بقول محکمہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔
’’ہمارے نزدیک تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں چھپتی، جس کی بنا پر یہ پابندی لگائی ہے۔۔۔ اس میں نا تو ہم کوئی توہین آمیز مواد شائع کرتے ہیں اور نا ہی کر سکتے ہیں۔ ہم نے واضح طور پر ہر رسالے پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ صرف احمدیوں کے لیے ہے۔ نا ہم کسی اور کو دیتے ہیں نا ہی اُس کا کوئی اور خریدار ہے۔‘‘
سلیم الدین کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد علاقے میں موجود احمدیہ برادری خوف و ہراس کا شکار ہے۔
اُدھر ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب اس معاملے کی تحقیقات کرے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں آباد تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور اُن کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا لیکن پاکستان میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے کے علاوہ احمدیہ برادری کو بھی مشکلات اور ناروا سلوک کا سامنا رہا ہے۔