پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ میں مقامی عمائدین کے جرگے میں امن لشکر کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی اور امن و امان کے لیے انتظامیہ اور سرکاری فورسز کی مدد کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق بدھ کو امن لشکر نے قبائلی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بعض سرحدی دیہاتوں میں شدت پسندوں کی تلاش کے لیے کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔
رواں ہفتے سکیورٹی فورسز نے باجوڑ کے افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی تیاری کرتے ہوئے یہاں کے تقریباً پانچ دیہاتوں سے لوگوں کو منتقل ہونے کا کہا تھا۔
انخلا کے اعلانات کے بعد یہاں سے اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد مرکزی قصبے خار کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔
لیکن جرگے میں ہونے والے فیصلوں اور انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے بعد ان لوگوں کو واپس آنے کا کہا گیا ہے اور تاحال سکیورٹی فورسز نے بھی کسی طرح کی کارروائی شروع نہیں کی۔
جرگے میں شامل ڈاکٹر خلیل الرحمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انتظامیہ کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ اگر مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا تو اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں۔
"ان لوگوں کو یہاں سے نکالنا اپنے مخالفین کو موقع دینے کے مترادف ہے۔ جرگے نے زور لگایا کہ ان لوگوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے دیں، پولیٹیکل انتظامیہ سے مذاکرات ہوئے ایک بڑا قومی لشکر بن گیا اس کو انتظامیہ نے مطلوب افراد کے نام دیے اور اس نے کارروائی شروع کر دی ہے۔"
تحصیل ماموند میں منگل کو رات دیر گئے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے فی الوقت نقل مکانی کر کے جانے والوں کو اپنے گھروں کو واپسی شروع نہیں ہوسکی۔
باجوڑ میں حالیہ مہینوں کے دوران سرحد پار افغانستان سے مشتبہ شدت پسند پاکستانی علاقے میں گھس کر سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی حملے میں فوج کے ایک افسر سمیت تین اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکسان ان حملوں پر افغانستان سے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے مؤثر اور سخت اقدامات کرے۔