بلوچستان کے شمالی ضلع لورالائی میں ایک مسافر کوچ سے مسافروں کو اُتارنے اور پولیس کی گاڑی پر راکٹ حملے میں پولیس کے ایک افسر سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے ۔ پولیس کے چار اہلکاروں نے حملہ آوروں کی فائرنگ سے بھاگ کر جان بچائی۔
واقعہ کی تحقیقات کرنے والے ضلع لورالائی کے ایک پولیس افسر محراب شاہ نے وائس اف امر یکہ کو بتایا کہ لورالائی سے ڈیرہ غازی خان جانے والی ایک مسافرکوچ کو چیچالو کے مقام پر نقاب پوش نامعلوم مسلح افراد نے روک لیا اور کوچ میں سوار تمام لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کیے۔
ان کے بقول مسافروں میں دو سرکاری ملازمین تھے جن کے سرکاری کارڈز چیک کرنے کے بعد مسلح افراد نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ یہ ضلع لورالائی کے علاقے راڑہ شم کے ایس ایچ او طاہر شاہ اور فرنٹئیر کور کے اہلکار جمعہ خان تھے جو فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
محراب شاہ نے بتایا کہ کچھ دیر بعد اسی راستے سے گزرنے والی پولیس کی ایک گاڑی پر بھی انہی مسلح افراد نے پہلے راکٹ فائر کرکے حملہ کیا اور پھر اس پر فائرنگ شروع کردی۔
حملے سے گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی اور اس پر سوار ایک پولس افسر ہلاک ہو گیا جب کہ باقی چار اہلکاروں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
واقعے کے بعد علاقے میں پولیس اور لیویز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
رواں ماہ کے دوران پولیس اہلکاروں پر شدت پسندوں کا یہ دوسرا حملہ ہے اس سے پہلے پولیس کے ڈی ایس پی کی گاڑی پر بھی حملے میں تین پولیس اہلکار ہلاک اور ڈی ایس پی شدیدزخمی ہوگئے تھے ۔اس واقعہ کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں لورالائی میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات دہشت گردی کے خاتمے کی حکومتی عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔
فرنٹئیر کور بلوچستان کے ڈی آئی جی نے اسی ماہ ایک پریس بر یفنگ میں بتایا تھا کہ وزیرستان میں آپریش ضرب عضب شروع ہونے کے بعد بعض طالبان شدت پسندوں نے بلوچستان کے شمالی ڈویژن ژوب کے اضلاع کا رُخ کرلیا ہے اور ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ اور مو سیٰ خیل میں روپوش ہو چکے ہیں جن کے خلاف ایف سی اکثر اوقات کارروائی کر تی رہتی ہے۔
ان کے بقول اب تک ایک درجن سے زائد شدت پسندوں کو مختلف کارروائیوں میں ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔