اسلام آباد، کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جمعرات کو ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار سمیت کم ازکم 30 افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے۔
کوئٹہ کی پولیس لائنز میں یہ خودکش حملہ ایک پولیس انسپکٹر کی نماز جنازہ کے دوران ہوا جنہیں جمعرات کی صبح نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
دھماکے سے ہلاک ہونے والوں میں کوئٹہ کے ڈی آئی جی آپریشنز فیاض سنبل سمیت کم ازکم آٹھ بھی اہلکار شامل ہیں۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویشناک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
جائے وقوع پر موجود ایک پولیس اہلکار نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ابھی نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جارہی تھی کہ ایک زور دار دھماکا ہوا۔
’’ دھماکا ہوا اور میں زمین پر گر گیا پھر دیکھا کہ ہر طرح زخمی پڑے ہوئے ہیں، میرے ساتھی اور افسران شہید ہوگئے ہیں۔ میرے ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر، میرے ڈی آئی جی آپریشنز میرا گنتی محرر سب کی لاشیں پڑی تھیں۔‘‘
صوبائی پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملوں سے پولیس کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
’’ ہم نہ پہلے پیچھے ہٹیں ہیں اور نہ اب پیچھے ہٹیں گے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر لڑنا ہوگا، سب لوگ اپنے اختلافات بھلا کر ان (دہشت گردوں) کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔‘‘
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےاہلکاروں نے جائے وقوع کا محاصرہ کر کے وہاں سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیے ہیں۔
پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر بلوچستان میں پہلے بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں پولیس پر ہونے والا یہ ہلاکت خیز حملہ تھا۔
قبل ازیں پولیس حکام نے بتایا تھا کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی میں پولیس انسپکٹر محب اللہ اپنے چار بچوں اور دو پولیس اہلکاروں کےہمراہ عید کی خریداری کے لیے نکلے تھے جنہیں عالمو چوک میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک روز قبل مستونگ میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک کم سن بچی ہلاک جب کہ تین خواتین سمیت ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جب کہ رواں ہفتے بولان کے علاقے میں شدت پسندوں نے پنجاب جانے والی بسوں سے اغوا کیے گئے 13 مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔
کوئٹہ کی پولیس لائنز میں یہ خودکش حملہ ایک پولیس انسپکٹر کی نماز جنازہ کے دوران ہوا جنہیں جمعرات کی صبح نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
دھماکے سے ہلاک ہونے والوں میں کوئٹہ کے ڈی آئی جی آپریشنز فیاض سنبل سمیت کم ازکم آٹھ بھی اہلکار شامل ہیں۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویشناک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
جائے وقوع پر موجود ایک پولیس اہلکار نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ابھی نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جارہی تھی کہ ایک زور دار دھماکا ہوا۔
’’ دھماکا ہوا اور میں زمین پر گر گیا پھر دیکھا کہ ہر طرح زخمی پڑے ہوئے ہیں، میرے ساتھی اور افسران شہید ہوگئے ہیں۔ میرے ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر، میرے ڈی آئی جی آپریشنز میرا گنتی محرر سب کی لاشیں پڑی تھیں۔‘‘
صوبائی پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملوں سے پولیس کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
’’ ہم نہ پہلے پیچھے ہٹیں ہیں اور نہ اب پیچھے ہٹیں گے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر لڑنا ہوگا، سب لوگ اپنے اختلافات بھلا کر ان (دہشت گردوں) کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔‘‘
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےاہلکاروں نے جائے وقوع کا محاصرہ کر کے وہاں سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیے ہیں۔
پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر بلوچستان میں پہلے بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں پولیس پر ہونے والا یہ ہلاکت خیز حملہ تھا۔
قبل ازیں پولیس حکام نے بتایا تھا کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی میں پولیس انسپکٹر محب اللہ اپنے چار بچوں اور دو پولیس اہلکاروں کےہمراہ عید کی خریداری کے لیے نکلے تھے جنہیں عالمو چوک میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔
بلوچستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک روز قبل مستونگ میں ہونے والے بم دھماکے میں ایک کم سن بچی ہلاک جب کہ تین خواتین سمیت ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جب کہ رواں ہفتے بولان کے علاقے میں شدت پسندوں نے پنجاب جانے والی بسوں سے اغوا کیے گئے 13 مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔