کوئٹہ —
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق تحقیقات کے سلسلے میں نیم فوجی سکیورٹی فورس فرنٹیئر کور (ایف سی)، حساس اداروں اور وزارتِ دفاع کی جانب سے تعاون نہیں کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے یہ ریمارکس صوبے میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سے متعلق مقدمے کی بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران دیے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
بدھ کو سماعت کے اختتام پر جاری ہونے والے حکم نامے میں ایف سی اور پولیس کے سربراہان، سیکرٹری دفاع، وفاقی اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سماعت کے موقع پر عدالت کے رو برو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ جبری گمشدگی کے مقدمے کے سلسلے میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اب تک جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ بھی عدالت کے رجسٹرار کو پیش کی جائے۔
عدالتِ عظمیٰ کی کوئٹہ رجسٹری میں رواں ہفتے لگا تار تین روز تک اس مقدمے کی سماعت کی گئی، تاہم بار بار ہدایت کے باوجود کسی لاپتہ شخص کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
اس مقدمے میں صوبائی حکومت کے وکیل شاہد حامد کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے اس اضافے کی بظاہر وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی حالیہ سماعتوں کے دوران درجنوں خاندانوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران لاپتہ ہونے والے اپنے اہل خانہ سے متعلق شکایات درج کرائی ہیں۔
"جو سپریم کورٹ کی فہرست تھی اُس میں سے 64 لوگوں کے حقیقتاً لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی تھی مگر اُس میں اضافہ ہوا ہے ... اب شاید 100 کے قر یب لاپتہ افراد ہیں۔"
وفاقی حکومت کے ایڈیشنل اٹارٹی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں وفاقی حکومت تمام فریقوں سے رابطے کے بعد ایک حکمت عملی مرتب کرکے عدالت میں پالیسی بیان جمع کرائے گی۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اُن کے پیاروں کو خفیہ اداروں نے بغیر مقدمات درج کیے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بعض لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے کہہ چکی ہیں کہ بلوچستان میں امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کیا جائے۔
اُنھوں نے یہ ریمارکس صوبے میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سے متعلق مقدمے کی بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران دیے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
بدھ کو سماعت کے اختتام پر جاری ہونے والے حکم نامے میں ایف سی اور پولیس کے سربراہان، سیکرٹری دفاع، وفاقی اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سماعت کے موقع پر عدالت کے رو برو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ جبری گمشدگی کے مقدمے کے سلسلے میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اب تک جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ بھی عدالت کے رجسٹرار کو پیش کی جائے۔
عدالتِ عظمیٰ کی کوئٹہ رجسٹری میں رواں ہفتے لگا تار تین روز تک اس مقدمے کی سماعت کی گئی، تاہم بار بار ہدایت کے باوجود کسی لاپتہ شخص کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
اس مقدمے میں صوبائی حکومت کے وکیل شاہد حامد کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے اس اضافے کی بظاہر وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی حالیہ سماعتوں کے دوران درجنوں خاندانوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران لاپتہ ہونے والے اپنے اہل خانہ سے متعلق شکایات درج کرائی ہیں۔
"جو سپریم کورٹ کی فہرست تھی اُس میں سے 64 لوگوں کے حقیقتاً لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی تھی مگر اُس میں اضافہ ہوا ہے ... اب شاید 100 کے قر یب لاپتہ افراد ہیں۔"
وفاقی حکومت کے ایڈیشنل اٹارٹی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں وفاقی حکومت تمام فریقوں سے رابطے کے بعد ایک حکمت عملی مرتب کرکے عدالت میں پالیسی بیان جمع کرائے گی۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اُن کے پیاروں کو خفیہ اداروں نے بغیر مقدمات درج کیے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بعض لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے کہہ چکی ہیں کہ بلوچستان میں امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کیا جائے۔