رسائی کے لنکس

بلوچستان میں نئی تعلیمی پالیسی پر عملدر آمد کا آغاز


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی شعبے میں ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کی غیر حاضری ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لانے پر غور کر رہی ہے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں حالیہ برسوں کے دوران بدامنی کے باعث مختلف شعبہ ہائے زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔

لیکن صوبے کی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات پر مبنی نئی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد شروع کردیا ہے جس کے جلد ہی مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو جائیں گے۔

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی شعبے میں ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کی غیر حاضری ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لانے پر غور کر رہی ہے۔

’’ یہاں بعض جگہوں پر اساتذہ تنخواہیں تو لے رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنی جگہ دوسرے لوگ رکھے ہوئے تو ہم ایسی اصلاحات لا رہے ہیں کہ اساتذہ اور طلبا کی اسکولوں میں حاضری کو الیکٹرانک طریقے سے کنٹرول کر پائیں، تاکہ ہر بچہ اسکول میں موجود ہو اور ڈراپ آؤٹ کم ہو اور اساتذہ کی حاضری بھی برقرار رہے۔‘‘

صوبائی مشیر تعلیم کا اشارہ ملک کے بعض بڑے شہروں میں واقع نجی اداروں میں نصب ایسی مشینوں کی طرف تھا جو داخلے اور اخراج کے وقت عملے کی ارکان کی انگلیوں کے نشانات کا عکس اور صحیح وقت محفوظ کرنے کو یقینی بناتی ہیں۔

سردار رضا بڑیچ نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ حالیہ برسوں میں خصوصاً امن وامان کی خراب صورتحال نے تعلیم کے شعبے کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور قابل اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بلوچستان سے دیگر صوبوں اور علاقوں کو منتقل ہو گئی ہے۔

مشیر تعلیم نے کہا کہ بنیادی مسئلہ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی خرابیاں ہیں ، جنہیں ماضی کی حکومتو ں نے دور کرنے پر توجہ نہیں دی۔

’’میرے خیال میں تعلیم حوالے سے جتنی تاریک تصویر دکھائی جاتی ہے، اتنی زیادہ خطرناک صورتحال نہیں ، بلوچستان میں تعلیمی ادارے برقرار ہیں لیکن چونکہ بلوچستان کا بہت بڑا رقبہ ہے جہاں تک ہم نے پہنچنا ہے۔‘‘

سردار بڑیچ کا کہنا تھا کہ فی الحال محکمہ تعلیم کے پاس ایسی مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں جن سے بلوچستان میں گھوسٹ اسکولوں یا ایسے تعلیمی اداروں کی موجودگی کی تصدیق ہو سکے جن کا وجود صرف کاغذوں تک محدود ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوماہ قبل ضلع آواران میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے وہاں پر اسکولوں کی عمارتوں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا تاہم صوبائی حکومت کی کو ششوں کی بدولت وہاں عارضی طور پر خیموں میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ بچوں کی تعلیمی سر گرمیاں بغیر کسی رُکاوٹ کے جاری رہ سکیں۔
XS
SM
MD
LG