کوئٹہ —
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں محکمہ تعلیم کے اعلٰی عہدیداروں کے مطابق صوبے میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد لگ بھگ 34 لاکھ ہے جن میں سے محض 11 لاکھ بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری غلام علی میر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 23 لاکھ بچوں کی تعلیم سے محروم رہنے کی بڑی وجوہات میں غربت، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریاں اور امن و امان کی خراب صورت حال شامل ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے اعداد وشمار صوبائی حکومت کو دستیاب نہیں لیکن ان کے بقول صوبے میں ایسے خاندانوں کی تعداد بہت کم ہے جو نجی درسگاہوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر پاتے ہیں۔
’’اس وقت سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد 56 ہزار ہے جو زیر تعلیم طالب علموں کے لیے بلاشبہ ناکافی ہے۔ اس لیے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اگر تیئس 23 لاکھ مزید بچوں کو اسکول بھیجنا ہے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر نئے اساتذہ کو بھرتی اور نئی درسگاہیں تعمیر کرنا ہوں گی۔‘‘
محکمہ تعلیم کے حکام کو توقع ہے کہ ملک میں شرح خواندگی 2015ء تک 55 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہو جائے گی۔ تاہم بلوچستان میں موجودہ شرح خواندگی محض 26 فیصد ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے تعلیم اور صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے سالانہ بجٹ میں اس مرتبہ تعلیم کے لیے مختص رقم میں 37 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جسے بلوچستان میں 300 نئے اسکول تعمیر کرنے جب کہ 300 موجودہ سرکاری اسکولوں کو جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرنے کے علاوں 5,000 طالب علموں کو ملکی اور غیر ملکی اسکالر شپ دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق منصوبوں کے لیے بھی اس رقم کا کچھ حصہ مختص کیا گیا ہے۔
صوبائی سیکرٹری تعلیم غلام علی میر نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ کے تعاون سے بلوچستان میں اساتذہ کو جدید تدریسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جاری منصوبے کو بھی فروغ تعلیم کے سلسلے میں انتہائی موثر کوشش قرار دیا۔
سیکرٹری تعلیم نے بتایا کے صوبائی حکومت نے اس منصوبے کے تحت کامیاب ہونے والے 200 اساتذہ کے لیے ہر سال سرکاری درسگاہوں میں نوکریاں دینے کا بندوبست بھی کر رکھا ہے اور قومی سطح پر امریکہ کے تعاون سے شروع کیے گئے اس تربیتی منصوبے سے بلوچستان میں بھی نظام تعلیم کے معیار پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تاہم اُنھوں نے اس تربیتی منصوبے کی رفتار بڑھانے اور اس میں وسعت لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ تعداد سالانہ 5,000 ہو گی تو اُسی صورت میں آئندہ 10 سے 12 سالوں میں اساتذہ کی موجودہ تعداد کی جگہ لینے کے لیے سرکاری درسگاہوں میں تربیت یافتہ اساتذہ دستیاب ہوں گے۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری غلام علی میر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 23 لاکھ بچوں کی تعلیم سے محروم رہنے کی بڑی وجوہات میں غربت، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریاں اور امن و امان کی خراب صورت حال شامل ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے اعداد وشمار صوبائی حکومت کو دستیاب نہیں لیکن ان کے بقول صوبے میں ایسے خاندانوں کی تعداد بہت کم ہے جو نجی درسگاہوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر پاتے ہیں۔
’’اس وقت سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد 56 ہزار ہے جو زیر تعلیم طالب علموں کے لیے بلاشبہ ناکافی ہے۔ اس لیے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اگر تیئس 23 لاکھ مزید بچوں کو اسکول بھیجنا ہے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر نئے اساتذہ کو بھرتی اور نئی درسگاہیں تعمیر کرنا ہوں گی۔‘‘
محکمہ تعلیم کے حکام کو توقع ہے کہ ملک میں شرح خواندگی 2015ء تک 55 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہو جائے گی۔ تاہم بلوچستان میں موجودہ شرح خواندگی محض 26 فیصد ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے تعلیم اور صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے سالانہ بجٹ میں اس مرتبہ تعلیم کے لیے مختص رقم میں 37 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جسے بلوچستان میں 300 نئے اسکول تعمیر کرنے جب کہ 300 موجودہ سرکاری اسکولوں کو جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرنے کے علاوں 5,000 طالب علموں کو ملکی اور غیر ملکی اسکالر شپ دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق منصوبوں کے لیے بھی اس رقم کا کچھ حصہ مختص کیا گیا ہے۔
صوبائی سیکرٹری تعلیم غلام علی میر نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ کے تعاون سے بلوچستان میں اساتذہ کو جدید تدریسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جاری منصوبے کو بھی فروغ تعلیم کے سلسلے میں انتہائی موثر کوشش قرار دیا۔
سیکرٹری تعلیم نے بتایا کے صوبائی حکومت نے اس منصوبے کے تحت کامیاب ہونے والے 200 اساتذہ کے لیے ہر سال سرکاری درسگاہوں میں نوکریاں دینے کا بندوبست بھی کر رکھا ہے اور قومی سطح پر امریکہ کے تعاون سے شروع کیے گئے اس تربیتی منصوبے سے بلوچستان میں بھی نظام تعلیم کے معیار پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تاہم اُنھوں نے اس تربیتی منصوبے کی رفتار بڑھانے اور اس میں وسعت لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ تعداد سالانہ 5,000 ہو گی تو اُسی صورت میں آئندہ 10 سے 12 سالوں میں اساتذہ کی موجودہ تعداد کی جگہ لینے کے لیے سرکاری درسگاہوں میں تربیت یافتہ اساتذہ دستیاب ہوں گے۔