رسائی کے لنکس

بلوچستان: اغوا برائے تاوان کے واقعات پر عوام کی تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان میں حالیہ برسوں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی تقریباً ایک کروڑ آبادی ایک دہائی سے زائد عرصے سے مختلف مسائل کا شکار چلی آ رہی ہے۔ مشرقی، مغربی اور جنوبی اضلاع کے لوگ بم دھماکوں، راکٹ حملوں، ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں، جبری گمشدگیوں اور گھروں سے جبری بے دخلی جب کہ شمالی اضلاع کے باسی انتہا پسندی اور اغوا برائے تاوان جیسے خطرات کے علاوہ بے روزگاری جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

تاہم حالیہ برسوں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسے واقعات پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کے 32 اضلاع میں تقریباً ہر ہفتے دو یا تین افراد تاوان کے لیے اغواکاروں کی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

تجزیہ کار اور محقق جلال خان نورزئی کہتے ہیں کہ دو سال قبل پولیس حکام کے بقول صوبے میں اغوا برائے تاوان میں مبینہ طور پر 70 گروہ ملوث تھے جن میں اب مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ کمانے کا ایک آسان طریقہ ہے اور بعض واقعات میں مبینہ طور پر سرکاری اداروں کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کا تذکرہ بھی کیا جارہا ہے۔

’’ 70 کے قر یب گروہ یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔۔۔ ان گروہوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور صورت حال میں بہتری نہیں آ رہی ہے۔‘‘

بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اسد الرحمن گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے پولیس اور لیویز اہلکاروں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی ہے جسے جدید خطوط پر تربیت فراہم کی گئی اور اس فورس کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔

’’ پچھلے سال کو ئٹہ میں اگر صرف 56 واقعات تھے اور اس میں سے میرا خیال ہے صرف 26 کا پتا لگایا گیا اس سال اب تک کو ئٹہ میں صرف 25 واقعات ہوئے ہیں اور 25 میں سے 19 جو ہیں وہ ٹر یس ہو چکے ہیں ، نہ صرف لوگوں کو برآمد کیا ہے بلکہ ان کی برآمد گی کے لئے اُن کے لواحقین نے جو رقم دی تھی وہ رقم بھی ہم نے برآمد کر کے واپس دی ہے۔‘‘

پاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی صوبے میں بدامنی سے متعلق مقدمے کی سماعت میں واضح احکامات دے چکی ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث بااثر شخصیات سمیت مختلف گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اس کے باوجود بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے لیکن سب سے کم آبادی والے صوبے کے عوام کے لیے حالات گزشتہ برسوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

گزشتہ ماہ لورالائی سے اغوا ہونے والے تین ڈاکٹروں کی رہائی کے لیے ان کے لواحقین کے مطابق ساڑھے تین کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی گئی۔

اسی طرح معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور کاسی قبیلے کے سربراہ ارباب عبدالظاہر کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کی رہائی کے لیے دس، دس کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ حالیہ دنوں میں صحافیوں کو بتا چکے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال دیگر صوبوں اور سابقہ حکومت کے دور کی نسبت کافی بہتر ہے اور اس میں مزید بہتری لانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
XS
SM
MD
LG