بلوچستان کے مسئلے پر قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان نے اہم بلوچ رہنماؤں کے خلاف ایسے مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جو ’سیاسی بنیادوں‘‘ پر قائم کیے گئے تھے۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے پیر کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کے چیف سیکرٹری کو ایک خط کے ذریعے وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ضروری کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔
’’ہم نے پاکستان کو بچانا ہے بلوچستان کے حالات بہتر کرنے ہیں، اور ہماری پوری قیادت کا فیصلہ ہے ہر صورت مذاکرات کرنا ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے بہن بھائیوں کے ساتھ جو بھی ناانصافیاں ہوئی ہیں ان کی ہمیں (تلافی) کرنی ہے۔‘‘
جن بلوچ رہنماؤں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے اُن میں سوئیٹزرلینڈ میں مقیم بلوچستان ری پبلیکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی اور لندن میں رہائش پذیر بلوچ سردار حیربیار مری شامل ہیں۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ حکومت ’’تمام ناراض بلوچ رہنماؤں‘‘ سے مذاکرات کر کے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گی۔
’’قتل کے ایسے مقدمات جن میں تیسرا فریق ملوث نا ہو، اس سے مراد یہ ہے اگر کسی کا والد، بہن یا بھائی ہوا اور اس نے خود جا کر ایف آئی آر درج کرائی ہے اس کو حکومت (ختم) نہیں کر سکتی۔‘‘
بلوچستان میں امن وامان کی خراب حالت بالخصوص قومی سلامتی سے متعلق ریاستی اداروں پر بلوچ قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کو مبینہ طور پر ماروائے عدالت قتل کرنے کے الزامات نے حالیہ دنوں میں صورت حال کو خاصا سنگین کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے صوبے کے حالات کو بہتر کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں ایک کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی کوششیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ لیکن بلوچ رہنما براہمداغ بگٹی اور حربیار مری حکومت کے ساتھ بات چیت کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں اور انھوں نے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کو بھی پہلے ہی مسترد کر رکھا ہے۔ یہ دونوں رہنما ایک آزاد بلوچستان کے حامی ہیں۔
بلوچستان کے معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت پاکستان پر رواں ماہ اُس وقت دباؤ میں اضافہ ہو گیا جب امریکی کانگریس کے ایک رکن نے آزاد بلوچستان کے حق میں ایک قرارداد ایوان نمائندگان میں بحث کے لیے پیش کردی۔ تاہم امریکی انتظامیہ نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے دونوں جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں۔