تعلیم کے وفاقی وزیر سردار آصف احمد علی نے اس تنقید کو مسترد کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے سماجی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات نہ کافی ہیں اور ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی بلند نہیں ہو رہا۔
حال ہی میں ایک عالمی غیر سرکاری ادارے لیگاٹم انسٹی ٹیوٹ نے اپنی جائزہ رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان 110 خوشحال ملکوں کی فہرست میں 109 نمبر پر ہے جس کی وجوہات میں اس کے ہاں تعلیم اور صحت کے نظام کی خراب صورتحال نمایاں دیکھائی دیتی ہیں۔
لیگاٹم انسٹی ٹیوٹ اپنا جائزہ مختلف ملکوں کے سماجی اور اقتصادی اشارے، طرز حکمرانی ، شخصی آزادی اور سلامتی کی صورتحال سمیت دیگر امور کو سامنے رکھ کر مرتب کرتا ہے جس کا معیار صرف یہ نہیں کہ کوئی ملک اقتصادی لحاظ سے کتنا خوش حال ہے بلکہ اس بات کو خاص طور سے مدنظر رکھا گیا ہے کہ وہاں کے عوام اپنی حالت زار سے کس حد تک خوش یا مطمین ہیں۔
سروے میں 109 نمبر پر رکھے جانے کے بعد پاکستان کے درجہ جنوبی ایشا میں بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش سے بھی نیچے آ گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وزیر تعلیم نے کہا کہ حکومت سماجی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے تمام ممکن اقدامات کر رہی ہے لیکن ان کے مطابق حالیہ سالوں میں ملک کو بعض َایسے سنگین مسائل کا سامنا رہا جس کے سماجی ترقی پر منفی اثرات پڑنا ناگزیر تھے۔"ماضی میں ہمیں ایک تباہ کن زلزلے کا سامنا کرنا پڑا ، ہم دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہیں اب بدترین سیلاب نے تباہی مچا دی ہے ان سب سے نمٹنے کے لیے ہمارے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ صرف ہوا اور ہو رہا ہے‘‘۔
تاہم وفاقی وزیر کے مطابق صورتحال اتنی بری نہیں جتنی ناقدین پیش کر رہے ہیں اور یہ کہ حالت بہتری کی طرف گامزن ہیں۔
خوش حال ملکوں میں ناروے کو سرے فہرست قرار دیا گیا ہے جبکہ ڈنمارک اور فن لینڈ بلترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ لیگاٹم انسٹی ٹیوٹ کے جائزے میں امریکہ دسویں اور برطانیہ تیرھویں نمبر پر ہے۔ فہرست میں زمبابوے 110 یعنی آخری نمبر پر ہے۔