اسلام آباد —
پاکستان بھر میں ماہ محرم میں پر تشدد کارروائیوں کے خطرات اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں کی دھمکی کے بعد سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیئے گئے ہیں۔
ماضی میں محرم کے مہینے میں خاص طور پر عاشورہ کے موقع پر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے ماتمی جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی یکم نومبر کو ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان شوریٰ نے رواں ہفتے سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
طالبان کے بعض رہنماؤں کی طرف سے حال ہی میں ناصرف یہ بیان سامنے آیا کہ وہ حکومت سے مجوزہ امن مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ اُنھوں نے ملک میں سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کے علاوہ سیاسی شخصیات پر بھی حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ خاص طور پر صوبہ پنجاب کو نشانہ بنایا جائے گا۔
صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں چاہے کچھ بھی بیان دیا جائے حکومت سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد ہی اس پر فیصلہ کر سکتی ہے۔
’’طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں بلکہ یہ پوری قومی قیادت کا متفقہ فیصلہ ہے، اگر اس میں کوئی تبدیلی ہونی ہے تو اس کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے۔‘‘
رانا ثنا اللہ نے اعتراف کیا کہ صوبے میں تشدد کے واقعات کا خطرہ موجود ہے۔
’’خطرہ تو ہے اس میں تو کوئی شک نہیں اور خاص طور پر وزیر اعلٰی پنجاب کی ذات کو (اور) وزیر اعظم کے لیے ’تھرٹ‘ تو ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت سے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں اُنھیں اعتماد میں لے۔ توقع ہے کہ 11 نومبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اس ضمن میں ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔
اُدھر صوبہ پنجاب کے سمیت ملک بھر میں ماہ محرم خاص طور پر عاشورہ کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے خاص کر امام بارگاہوں اور مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں بھی سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی گئی۔
ماضی میں محرم کے مہینے میں خاص طور پر عاشورہ کے موقع پر شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے ماتمی جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی یکم نومبر کو ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان شوریٰ نے رواں ہفتے سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
طالبان کے بعض رہنماؤں کی طرف سے حال ہی میں ناصرف یہ بیان سامنے آیا کہ وہ حکومت سے مجوزہ امن مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ اُنھوں نے ملک میں سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کے علاوہ سیاسی شخصیات پر بھی حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ خاص طور پر صوبہ پنجاب کو نشانہ بنایا جائے گا۔
صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں چاہے کچھ بھی بیان دیا جائے حکومت سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد ہی اس پر فیصلہ کر سکتی ہے۔
’’طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں بلکہ یہ پوری قومی قیادت کا متفقہ فیصلہ ہے، اگر اس میں کوئی تبدیلی ہونی ہے تو اس کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے۔‘‘
رانا ثنا اللہ نے اعتراف کیا کہ صوبے میں تشدد کے واقعات کا خطرہ موجود ہے۔
’’خطرہ تو ہے اس میں تو کوئی شک نہیں اور خاص طور پر وزیر اعلٰی پنجاب کی ذات کو (اور) وزیر اعظم کے لیے ’تھرٹ‘ تو ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت سے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں اُنھیں اعتماد میں لے۔ توقع ہے کہ 11 نومبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اس ضمن میں ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔
اُدھر صوبہ پنجاب کے سمیت ملک بھر میں ماہ محرم خاص طور پر عاشورہ کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے خاص کر امام بارگاہوں اور مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں بھی سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی گئی۔