رسائی کے لنکس

بن لادن کی ہلاکت کے ایک سال بعد بھی باہمی تعلقات کشیدہ


ایبٹ آباد میں واقع بن لادن کی مسمار شدہ رہائش گاہ کے قریب مقامی لوگ بیٹھے ہیں
ایبٹ آباد میں واقع بن لادن کی مسمار شدہ رہائش گاہ کے قریب مقامی لوگ بیٹھے ہیں

ایک سال قبل امریکی فوجیوں نے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ہلاک کر دیا۔ یوں کسی ایک شخص کا کھوج لگانے کی تاریخ کی ایک انتہائی مہنگی مہم ختم ہو گئی ۔ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے پر جو پاکستان کی ایک اعلیٰ ملٹری اکیڈمی کے قریب ہی واقع تھا، امریکہ کے اچانک چھاپے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کو سخت دھچکہ لگا ۔ دونوں ملک آج بھی اس کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کی مشہور فوجی اکیڈمی والے شہر ایبٹ آباد کے بیچوں بیچ اسامہ بن لادن کی آخری رہائش گاہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔ برابر والے گھر میں رہنے والے ہمسایوں کو وہ رات آج بھی یاد ہے جب القاعدہ کا مفرور لیڈر امریکہ کی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو ا تھا۔

’’میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا تھا جب ایک ہیلی کاپٹرگر کر تباہ ہوگیا اور میں نے دیکھا کہ فضا میں موجود ایک دوسرا ہیلی کاپٹر تیزی سے حویلی کی دیوار کے ساتھ ساتھ نیچے اترا۔ اس دوران ہوا کے شدید دباؤ سے میرے گھر کا مرکزی دروازہ بھی ٹوٹ کر اندر کی طرف گرگیا۔‘‘

افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد، القاعدہ کے سربراہ نے اپنا بیشتر وقت پاکستان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں صرف کیا۔ آخر کار وہ ایبٹ آباد کے اس گھر میں منتقل ہو گیا جسےمقامی لوگوں نے وزیرستان حویلی کا نام دے رکھا تھا۔ پانچ برس تک، بن لادن، اس کی تین بیویاں اور ان کے بچے یہیں رہتے رہے ۔

مہینوں تک بن لادن کی رہائش گاہ بین الاقوامی دلچسپی کا مرکز بنی رہی۔ آخرِ کار حکام نے فروری میں اس عمارت کو مسمارتو کر دیا، لیکن فوج کے سابق بریگیڈیئرشوکت قادر، جو ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہیں تحقیق کے لیے اس حویلی میں جانے کی اجازت دی گئی تھی، کہتے ہیں کہ بن لادن نے جو نظریاتی ورثہ چھوڑا ہے اس کے اثرات کو دور کرنا کہیں زیادہ مشکل ہو گا ۔

شوکت قادر
شوکت قادر

’’پاکستانی طالبان کے روابط القاعدہ کے ساتھ قائم ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پنجاب میں، خاص طور سے جنوبی پنجاب میں، القاعدہ کے ماننے والے کافی تعداد میں ہیں ۔ لہٰذا ، پاکستان میں القاعدہ کا مسئلہ موجود ہے ۔‘‘

ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستانی عہدے دار سیکورٹی کے داخلی مسائل کے لیے اکثر بیرونی عناصر کو الزام دیتےہیں جب کہ وہ فوج کے حامی مذہبی گروپوں کو نظر انداز کر دیتےہیں۔

امریکی چھاپے کے بعد کے مہینوں میں، مذہبی گروپ فوج کی حمایت میں متحد ہو گئے۔ پاکستانی فوج نے اس حملے کوملک کی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا۔

گذشتہ سال کے آخر میں، وائس آف امریکہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے، پاکستان میں امریکہ کے سفیرکیمرون منٹرنے اس آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا تھا۔

’’بن لادن کے خلاف حملہ پاکستان کے خلاف حملہ نہیں تھا۔ یہ حملہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف تھا۔ اگر پاکستان میں اس بارے میں کوئی نا گواری کا احساس ہے تو اسے دور کرنے کے لیے ہمیں اور زیادہ قریبی تعاون سے کام کرنا چاہیئے۔‘‘

بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی کارروائی کے بعد آنے والے مہینوں میں باہمی اعتماد کی بحالی کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی مذاکرات ہوئے مگر حالات معمول پر نہیں آسکے۔ پھر جب سرحد پار امریکہ کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی سپاہی ہلاک ہو گئے تو تعلقات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔

اب جب کہ امریکہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کی تیاری کر رہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے نئے سرے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اسد منیر
اسد منیر

انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، کے سابق بریگیڈیئراسد منیر کا ماننا ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری ہی پاکستان اور امریکہ کو مشترکہ اہداف کے حصول میں مدد دے سکتی ہے۔

’’میرے خیال میں تعلقات ویسے تو نہیں ہو سکیں گے جیسے گذشتہ سال 2 مئی سے پہلے تھے۔ لیکن ان میں بہتری آنا ضروری ہے ۔ اگر دونوں ملک مل جل کر کام نہیں کر سکتے، تو اوباما کی افغانستان سے نکلنے کی حکمت عملی پر عمل نہیں ہو سکے گا۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سیکورٹی کا اصل چیلنج ان پاکستانی اورافغان گروہوں سے نمٹنا ہے جن کی نظر میں القاعدہ کا یہ لیڈر مغرب کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کی علامت ہے ۔

XS
SM
MD
LG