رسائی کے لنکس

بن لادن دستاویزات: القاعدہ اورتحریک طالبان پاکستان کے درمیان کشیدگی کا عندیہ


امریکی فوج کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات میں شامل ایک خط میں القاعدہ نے حکیم اللہ محسود کی طرف سے بھیجے گئے کسی مسوّدے کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس میں ’’سیاسی اور شرعی غلطیاں ہیں”

اسامہ بن لادن کے گھر سے گزشتہ برس ملنے والی دستاویزات سےالقاعدہ اورتحریک طالبان پاکستان کے درمیان کشیدگی کا عندیہ ملتا ہے۔

امریکی فوج کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات میں شامل ایک خط میں القاعدہ نے حکیم اللہ محسود کی طرف سے بھیجے گئے کسی مسوّدے کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ اس میں ’’سیاسی اور شرعی غلطیاں ہیں۔”

اس کے علاوہ القاعدہ کے ایک رکن بدر (منصور) کو تحریک طالبان میں شامل کرنے کی کوششوں کا بہت سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان کو کسی اور تنظیم میں شامل کرنے یا کسی دوسرے محاذ پر بھیجنے کی کوشش نہ کی جائے۔

یہ خط القاعدہ کے رہنماؤں احمود الحسن عرف عطیتہ اللہ اور ابو یحیٰی الّبی کی طرف سے حکیم اللہ محسود کے نام لکھا گیا ہے۔ خط میں تحریک طالبان پاکستان کے اس وقت کے امیر کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ عام گلیوں اور بازاروں میں عام مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور انہیں انسانی ڈھال بنانے سے پرہیز کریں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تحریک طالبان نے اپنا رویّہ نہ بدلا تو اس کے خلاف ’’فیصلہ کن” کاروائی کی جائے گی۔

بن لادن کی ایبٹ آباد میں رہائش گاہ سے یہ دستاویزات امریکی فوج نے اس وقت جمع کی تھیں جب ایک حملے میں بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تقریبًا ایک برس بعد چھ ہزار دستاویزات میں سے سترہ کو امریکی فوجی اکیڈمی کے دہشت گردی کے خلاف سنٹر کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا گیا ہے۔

ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن القاعدہ اور عالمی جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں سے کٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ پوری طرح باخبر اور متحرک تھے۔ وہ نہ صرف دنیا بھر میں مختلف جہادی تنظیموں کے رہنماؤں کو مشورے دیتے تھے بلکہ القاعدہ کی حکمت عملی بنانے میں بھی متحرک تھے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تمام ساتھی ان سے متفق نہیں تھے ۔

ان میں سے بیشتر دستاویزات خطوط کی صورت میں ہیں اور یہ تمام خطوط اسامہ بن لادن کے بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں القاعدہ کے دیگر رہنماؤں کے خطوط بھی شامل ہیں۔

ان دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن جہادی حملوں میں مسلمانوں کی ہلاکت سے خوش نہیں تھے۔ اپنے ایک ساتھی شیخ محمود کے نام ایک خط میں بن لادن کا کہنا تھا کہ گیارہ ستمبر کے نیو یارک اور واشنگٹن کے حملوں کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں جہادی تنظیموں کے ساتھ ہو گئی تھیں لیکن آئندہ سالوں میں جہادی حملوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت سے یہ ہمدردیاں ختم ہو گئیں۔ خصوصاً مساجد اور مذہبی مقامات پر حملوں کا ان کے خیال میں بہت نقصان تھا۔ اسی لیے وہ القاعدہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کے خواہاں تھے ۔

ایسے ہی ایک خط میں ، جس کے مصنف کا نام واضح نہیں، لیکن اس کے مندرجات سے وہ اسامہ بن لادن یا ان کے کسی قریبی ساتھی کا لگتا ہے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ القاعدہ کو اپنی تمام تر توجہ امریکی اہداف پر حملہ کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیئے اور اس کے دیگر ساتھیوں مثلًا نیٹو، یا ایسی مسلم حکومتوں کو جو امریکہ کی حامی ہیں، فی الحال بھول جانا چاہیئے۔ خط کے مطابق امریکہ ’’درخت کا تنا” ہے اور باقی سب شاخیں۔ اگر تنا گر گیا تو شاخیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔

یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن القاعدہ کا نام تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں تنظیم کے موجودہ نام سے اس کی اسلامی شناخت سامنے نہیں آتی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ القاعدہ کا میڈیا سیل بہت متحرک تھا اور گیارہ ستمبر کے حملوں کی دسویں برسی کے موقعے پر عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر حکمت عملی کا تعین کر رہا تھا۔

اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں رہائش گاہ تک رسائی حاصل کرنے والے امریکی صحافی اور مصنف پیٹر برگن کے مطابق ان دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن ڈرون حملوں سے پریشان تھے اور انہیں فکر تھی کہ القاعدہ کے اہم رہنما ہلاک ہو رہے ہیں۔

یہ دستاویزات بے حد جانچ پڑتال کے بعد شائع کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG