پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے حصول، سلامتی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے مشترکہ تعاون سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات بدھ کو کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر شکل بشمول غیر قانونی تسلط کے تحت لوگوں کے خلاف روا رکھی جانے والی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے انسداد دہشت گردی کے علاقائی فریم ورک کے تحت دہشت گردی کے خلاف تعاون کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی ہے اور پاکستان ایس سی او ممالک کے ساتھ دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق اپنے تجربات کا تبادلہ کرنے پر تیار ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ‘‘ اگر امن چاہیے تو دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو دور کرنا ضروری ہے۔’’
انہوں نے افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں ہونے والی بات چیت ہی پیش رفت کرنے کا واحد راستہ ہے۔
‘‘یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ امن و مصالحت کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھے گا، ہم توقع کرتے ہیں کہ اس میں دیگر افغانوں اور ان کے مفادات کو بھی شامل کیا جائے گا۔’’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان امن عمل میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا اور توقع کرتا ہے کہ دیگر ملک افغان امن عمل کی مشترکہ ذمہ داری کے طور پر اس کی حمایت کریں گے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ کئی ماہ کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان تنازع کے حل کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم یورپ اور ایشیائی ملکوں پر مشتمل سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی ایک تنظیم ہے جسے 2001 میں چین، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان نے شنگھائی میں قائم کیا تھا۔ بعد ازاں اس میں ازبکستان کو بھی شامل کر لیا گیا۔
پاکستان 2005 میں اس تنظیم کا مبصر بنا۔ بعد ازاں جولائی 2015 میں پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم میں باقاعدہ ایک رکن کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ جس کے بعد اس گروپ کے ارکان کی تعداد 6 سے بڑھ کر 8 ہو گئی ہے۔
شنگھائی تعاون تنطیم کے وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب تنظیم کے دو رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں تناؤ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے سفارتی تعلقات معطل ہیں۔ تاہم بشکیک میں ہونے والے اس اجلاس کے موقع پر بھارت کی وزریر خارجہ سشما سوراج اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان غیر رسمی بات چیت ہوئی ہے۔
دوسری طرف چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے بدھ کو بیجنگ میں معمول کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بشکیک میں ’ایس سی او ‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مقصد تنظیم کے فریم ورک کے تحت رکن ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ ماہ ایس سی او کے سربراہ اجلاس کی تیاری ہے۔
شنگھائی تعاون تنطیم کا سربراہ اجلاس جون میں کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ہو گا جس میں چین، روس، بھارت، پاکستان، قازقسان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغزستان کی اعلیٰ قیادت شرکت کرے گی۔
بشکیک میں دورے کے دوران شاہ محمود قریشی نے اپنے چینی ہم منصب لی کانگ اور روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق روسی ہم منصب سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، خطے اور افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر پاکستان اور روس نے بیرونی مدار میں ہتھیاروں کی تنصیب میں پہل نہ کرنے کے مشترکہ سمجھوتے پر بھی دستخط کیے۔