پاکستان میں دینی مدارس کی ایک نمائندہ تنظیم کے سربراہ نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے موجودہ قانون میں کسی قسم کی کوئی ترمیم یا تنسیخ کا مطلب ملک کی مسلمان آبادی کو ” دینی بےحمیتی قبول کرنے یا انھیں قانون ہاتھ میں لینے“ پر مجبور کرنے کے مترادف ہوگا۔
جمعرات کو کراچی میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے 52 علماء اکرام کے اجلاس کے بعد بریلوی اوراہل سنت مسالک کی تنظیم وفاق المدارس پاکستان اہل سنت کے صدر مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ حکمرانوں کا کوئی بھی ایسا ”غیر محتاط اقدام“ ملک میں انارکی اور لاقانونیت کو فروغ دے گا۔ ”جب مقام مصطفیٰ کی تحریک کے آگے پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ، پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین اور اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، کو سرنگوں ہونا پڑا تو آج کے حکمران تو ان کا پاسنگ بھی نہیں “۔
انھوں نے حکومت کو ”مخلصانہ مشورہ“ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ”ہوش کے ناخن “ لے اور مصیبت ، انتشار اور بدنظمی میں مبتلا“ پاکستان کو مزید مشکلات میں نہ ڈالے۔
مفتی منیب الرحمن کے بقول حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قانون کے شرعی جواز پر پاکستان میں مسلمانوں کے تمام مسلمہ مکاتب فکر کا اجماع ہے۔ انھوں نے حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن سے پارلیمان میں پیش کی گئی اپنی اُس قرارداد کو واپس لینے کو بھی کہا جس میں اُنھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترامیم تجویز کی ہیں تاکہ اس کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد ملے، ان تجاویز میں سزائے موت کاخاتمہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ماہ ضلع ننکانہ کی ایک ذیلی عدالت کی طرف سے ایک عیسائی خاتون، آسیہ بی بی، کو توہین رسالت کے جرم میں سنائی گئی سزائے موت کے بعد پاکستان میں ان دنوں یہ قانون ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس 45 سالہ خاتون، جو پانچ بچوں کی ماں ہے، کا موقف ہے کہ وہ بے گناہ ہے اور گاؤں کی مسلمان خواتین نے ذاتی عناد کی وجہ سے اُن پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آسیہ بی بی پہلی خاتون ہیں جنہیں توہین رسالت قانون کے تحت موت سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل غیر سرکاری تنظیمیں ایک طویل عرصہ سے اس قانون کی منسوخی یا اس میں مناسب ترامیم کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے کہ یہ ایک امتیازی قانون ہے جسے خاص طور پر ملک میں اقلیتی برادری کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیا استعمال کیا جار ہا ہے۔ آسیہ بی بی کے خلاف عدالت کے فیصلے کے بعد سے ان تنظیموں نے ایک بار پھر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے بھی تمام مکاتب فکر اور فریقین سے صلاح مشوروں کے بعد توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی سے آسیہ بی بی کو معاف کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
تاہم اُن کے اس بیان کی پاکستان کی اسلامی جماعتوں کی طرف سے کڑی مذمت کی جارہی ہے اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں جن میں موقف اختیا ر کیا گیا ہے کہ عیسائی خاتون کو معافی کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے بشرطیکہ اُس کی بے گناہی ثابت ہو جائے۔
مفتی منیب الرحمن کی طرف سے جمعرات کو حکومت کو انتباہ بھی اسی احتجاجی سلسلے کی کڑی ہے۔ گذشتہ ہفتے پشاور کی مہابت خان مسجد کےامام مولانا یوسف قریشی نے بھی اعلان کیا تھا کہ اگر حکومت آسیہ بی بی کو اپنے طور پر معاف کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو جو شخص بھی اس خاتون کو” قتل“ کرے گا اُن کی مسجد اُسے پانچ لاکھ روپے نقد انعام دے گی۔
آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُس کی بیوی بے گناہ ہے اور اُسے یقین ہے کہ عدالت اُسے رہا کردے گی۔ تاہم بقول عاشق مسیح کے خاندان کو انتہا پسندوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے تناظر میں اُنھیں خوف ہے کہ آسیہ بی بی کو زندہ رہنے نہیں دیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ دھمکیوں کے پیش نظر اُن کی بیٹیوں اور دوسرے بچوں نے سکول جانا چھوڑ دیا ہے اور خوف کا شکار پورا خاندان چھپتا پھر رہا ہے۔ عاشق مسیح کا کہنا ہے کہ اُن کے گاؤں اٹاں والی کی آبادی لگ بھگ دو ہزار ہے جس میں بیس افراد پر مشتمل صرف دو عیسائی گھرانے ہیں جبکہ باقی تمام مسلمان ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ دونوں عیسائی خاندانوں کے افرادڈر کے مارے گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔