پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں وفاقی حکومت کے اس اعلان کی سخت مذمت کررہی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالت سے متعلق قانون میں ترامیم حکومت کے زیر غور نہیں اور نہ ہی اس اسلامی قانون پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔
جمعرات کو پارلیمان کے سامنے انسانی حقوق کی تنظمیوں کے درجنوں کارکنوں نے بارش کے باوجود ایک جلوس نکالا جس میں اس اسلامی قانون میں اصلاحات یا اس کی تنسیخ کے خلاف احتجاجی مہم جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
ریلی کے شرکا نے عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف دوسرے امتیازی قوانین میں ترامیم کا مطالبہ بھی دہرایا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرین نے وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کو بھی مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تحفظ خواتین ایکٹ 2006 کے تحت حدود آرڈیننس میں لائی گئی بعض تبد یلیاں غیر آئینی اور غیر اسلامی ہیں۔
ایک روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ایک نیوز کانفرنس میں اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور خورشید شاہ نے قومی اسمبلی سے خطاب میں یہ واضح طور پر کہا کہ حکومت توہین رسالت کے اسلامی قانون میں کوئی ترمیم نہیں کرے گی اور اس بے بنیاد تجویز کو بہانہ بنا کر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیےمذہبی جماعتوں کو حکومت کے خلاف مہم نہیں چلانی چاہیے۔
پاکستان کی اسلامی جماعتوں نے جمعہ کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے جس کا مقصد پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ انتباہ کرنا ہے کہ توہین رسالت قانون میں کوئی ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی۔
جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے اطلاعات ونشریات کے وزیر مملکت صمصام بخاری نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ موجودہ حکومت توہین رسالت کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کرنے جارہی اور نہ اس سلسلے میں پارلیمان میں کوئی قانون غور کے لیے پیش کی جانے کی تجویز ہے ۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ عزم رکھتی ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو اور کوئی بھی قانون ان کے استحصال کے لیے استعمال نہ ہو۔