پاکستان میں توہینِ اسلام کے الزام میں زیرِ حراست کمسن عیسائی لڑکی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر عدالتی کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران رمشا مسیح پر الزامات کے حق میں دلائل دینے والے وکیل راؤ عبد الرحیم نے ملزمہ کی عمر سے متعلق طبی رپورٹ پر اعتراضات اُٹھائے۔
سیشن جج راجہ جواد حسن نے متعلقہ حکام کو رپورٹ پر وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے رمشا کی درخواست پر عدالتی کارروائی ہفتہ (یکم ستمبر) تک ملتوی کر دی۔
دو روز قبل جمع کرائی گئی طبی رپورٹ میں عیسائی لڑکی کی عمر 14 سال بتائی گئی تھی، جس کی بیناد پر اُس کے خلاف بچوں کے لیے وضع کردہ قوانین کے تحت کارروائی ہونا تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رشما ’ڈاؤن سنڈروم‘ نامی بیماری کا شکار ہے جس کی وجہ سے اُس کی ذہنی صحت جسمانی نشونما سے مطابقت نہیں رکھتی۔
راؤ عبدالرحیم نے عدالتی کارروائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طبی رپورٹ مرتب کرنے والے ڈاکٹروں نے لڑکی کی عمر کے ساتھ ساتھ اُس کی ذہنی حالت پر اظہارِ خیال کرکے اپنے اختیارات سے تجاویز کیا ہے۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ لڑکی کا طبی معائنہ بھی عدالتی حکم کے بغیر ہی کروایا گیا۔
’’ریاست اس رپورٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے ... ہم قرآن کو نذر آتش کرنے والوں کو سزا سے بچنے نہیں دیں گے۔‘‘
اُدھر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے رمشا کی رہائی میں تاخیر کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان میں رائج تحفظ ناموس رسالت اور توہینِ اسلام سے متعلق قانون میں ترمیم کے مطالبے کو دہرایا ہے۔
حقوقِ نسواں کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے کمرہ عدالت کے باہر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مقدمے کے طوالت اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ اُسے (رمشا مسیح کو) جیل سے رہا کرکے تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
عیسائی لڑکی کو اسلام آباد کی ایک نواحی بستی سے رواں ماہ اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب مقامی رہائشیوں نے رمشا پر قرآنی آیات والے اوراق کی بے حرمتی کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد اُس کے گھر کا گھراؤ کر رکھا تھا۔
رمشا کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے، جب کہ ممکنہ خطرات کے باعث بستی میں آباد عیسائی خاندان نامعلوم مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران رمشا مسیح پر الزامات کے حق میں دلائل دینے والے وکیل راؤ عبد الرحیم نے ملزمہ کی عمر سے متعلق طبی رپورٹ پر اعتراضات اُٹھائے۔
سیشن جج راجہ جواد حسن نے متعلقہ حکام کو رپورٹ پر وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے رمشا کی درخواست پر عدالتی کارروائی ہفتہ (یکم ستمبر) تک ملتوی کر دی۔
دو روز قبل جمع کرائی گئی طبی رپورٹ میں عیسائی لڑکی کی عمر 14 سال بتائی گئی تھی، جس کی بیناد پر اُس کے خلاف بچوں کے لیے وضع کردہ قوانین کے تحت کارروائی ہونا تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رشما ’ڈاؤن سنڈروم‘ نامی بیماری کا شکار ہے جس کی وجہ سے اُس کی ذہنی صحت جسمانی نشونما سے مطابقت نہیں رکھتی۔
راؤ عبدالرحیم نے عدالتی کارروائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ طبی رپورٹ مرتب کرنے والے ڈاکٹروں نے لڑکی کی عمر کے ساتھ ساتھ اُس کی ذہنی حالت پر اظہارِ خیال کرکے اپنے اختیارات سے تجاویز کیا ہے۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ لڑکی کا طبی معائنہ بھی عدالتی حکم کے بغیر ہی کروایا گیا۔
’’ریاست اس رپورٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے ... ہم قرآن کو نذر آتش کرنے والوں کو سزا سے بچنے نہیں دیں گے۔‘‘
اُدھر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے رمشا کی رہائی میں تاخیر کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان میں رائج تحفظ ناموس رسالت اور توہینِ اسلام سے متعلق قانون میں ترمیم کے مطالبے کو دہرایا ہے۔
حقوقِ نسواں کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے کمرہ عدالت کے باہر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مقدمے کے طوالت اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ اُسے (رمشا مسیح کو) جیل سے رہا کرکے تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
عیسائی لڑکی کو اسلام آباد کی ایک نواحی بستی سے رواں ماہ اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب مقامی رہائشیوں نے رمشا پر قرآنی آیات والے اوراق کی بے حرمتی کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد اُس کے گھر کا گھراؤ کر رکھا تھا۔
رمشا کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے، جب کہ ممکنہ خطرات کے باعث بستی میں آباد عیسائی خاندان نامعلوم مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔