لاہور —
لاہور میں پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ایک روز پہلے بادامی باغ کے قریب واقع مسیحیوں کی بستی جوزف ٹاؤن میں گھروں اور دُکانوں کو آگ لگانے اور وہاں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی گرفتاریوں کے لیے اس موقع پر کی جانے والی وڈیو ریکارڈنگ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔
پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشنز رائے طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ساری رات پولیس نے ریڈ کی ہے۔ 150 سے زیادہ شر پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کل ہم ان کا چلان کریں گے آج بھی سارا دن اور رات ریڈ ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ شر پسندوں کو گرفتار کیا جائے گا۔‘‘
اتوار کو ملک بھر میں جوزف ٹاؤن میں ہونے والے اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی ہوا اور مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام پریس کلب کے باہر احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے سانحہ جوزف ٹاؤن پر حکومت پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
لاہور کی سب سے بڑی مسیحی بستی یوحنا ٹاؤن میں مسیحی احتجاج کرتے رہے۔ انھوں نے فیروز پور روڈ بند کر دی اور میٹرو بس سروس کے ایک اسٹیشن کے شیشے بھی توڑ دیے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
جوزف ٹاؤن کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کی کالونی کے ایک مکین ساون مسیح پر توہین رسالت کا الزام عائد کیے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے 150 سے زیادہ رہائشی مکانات، درجن بھر دُکانیں اور علاقے میں عبادت کے لیے قائم دو چھوٹے گرجا گھر نذر آتش کیے جس کے بعد سے اس ٹاؤن کے بیشتر رہائشی یا تو شہر میں اپنے عزیزوں، دوستوں کے ہاں مقیم ہیں یا وہ جوزف ٹاؤن کے باہر سڑک پر بیٹھے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہبار شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور اس موقع پر حکومت پنجاب کے ترجمان پرویز رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے تمام گھروں کی تعمیر کرانا ہمارا فرض ہے۔۔۔اس پر 50 لاکھ لگے 50 کروڑ لگے یہ ہم لگائیں گے۔‘‘
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اقلیتوں کے خلاف اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات کا حکم جاری کیا ہوا ہے جب کہ صدارتی ترجمان کے ایک بیان کے مطابق صدر نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے یہ واقعات ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشنز رائے طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ساری رات پولیس نے ریڈ کی ہے۔ 150 سے زیادہ شر پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کل ہم ان کا چلان کریں گے آج بھی سارا دن اور رات ریڈ ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ شر پسندوں کو گرفتار کیا جائے گا۔‘‘
اتوار کو ملک بھر میں جوزف ٹاؤن میں ہونے والے اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی ہوا اور مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام پریس کلب کے باہر احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے سانحہ جوزف ٹاؤن پر حکومت پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
لاہور کی سب سے بڑی مسیحی بستی یوحنا ٹاؤن میں مسیحی احتجاج کرتے رہے۔ انھوں نے فیروز پور روڈ بند کر دی اور میٹرو بس سروس کے ایک اسٹیشن کے شیشے بھی توڑ دیے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
جوزف ٹاؤن کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کی کالونی کے ایک مکین ساون مسیح پر توہین رسالت کا الزام عائد کیے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے 150 سے زیادہ رہائشی مکانات، درجن بھر دُکانیں اور علاقے میں عبادت کے لیے قائم دو چھوٹے گرجا گھر نذر آتش کیے جس کے بعد سے اس ٹاؤن کے بیشتر رہائشی یا تو شہر میں اپنے عزیزوں، دوستوں کے ہاں مقیم ہیں یا وہ جوزف ٹاؤن کے باہر سڑک پر بیٹھے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہبار شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور اس موقع پر حکومت پنجاب کے ترجمان پرویز رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے تمام گھروں کی تعمیر کرانا ہمارا فرض ہے۔۔۔اس پر 50 لاکھ لگے 50 کروڑ لگے یہ ہم لگائیں گے۔‘‘
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اقلیتوں کے خلاف اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات کا حکم جاری کیا ہوا ہے جب کہ صدارتی ترجمان کے ایک بیان کے مطابق صدر نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے یہ واقعات ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔