اسلام آباد —
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک مسیحی نوجوان کی طرف سے مبینہ طور پر توہین رسالت کے ارتکاب کے بعد مشتعل افراد نے ہفتہ کو مسیحی برادری کے مختلف گھروں میں گھس کر سامان کو آگ لگا دی۔
پولیس کی بھاری تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی جب کہ مقامی سیاسی قائدین نے بھی مشتعل افراد سے بات چیت کر کے اُنھیں منتشر ہونے پر آمادہ کیا۔
لاہور پولیس نے ساون مسیح نامی ایک عیسائی لڑکے کے خلاف مبینہ طور پر توہین رسالت کا مرتکب ہونے پر جمعہ کو مقدمہ درج کیا تھا۔
ساون مسیح پر اس کے محلے کے کچھ افراد نے الزام لگایا تھا کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے، جس کے بعد پولیس نے اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔
لیکن مشتعل مظاہرین کا الزام تھا کہ پولیس کی طرف سے موثر کارروائی نا کیے جانے پر اُنھوں نے یہ احتجاجی قدم اٹھایا۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنماء ملک پرویز نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اس واقعے کہ شدید مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
اُنھوں نے کہا کہ مشتعل افراد کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ سپریٹنڈنٹ پولیس سطح کے افسر سے توہین رسالت کے الزام کی تفتیش کرائی جائے گی۔
پاکستان میں توہین مذہب کا قانون حالیہ برسوں میں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ترمیم کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے لاہور میں مسیحی برادری کےگھروں کو آتشزدگی کا نشانہ بنائے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان کے بقول صدر نے کہا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف ایسے فساد ملک کے تشخص کو خراب کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتیں پاکستان کے مساوی شہری ہیں اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول اسلام برداشت اور اقلیتوں کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔
پولیس کی بھاری تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی جب کہ مقامی سیاسی قائدین نے بھی مشتعل افراد سے بات چیت کر کے اُنھیں منتشر ہونے پر آمادہ کیا۔
لاہور پولیس نے ساون مسیح نامی ایک عیسائی لڑکے کے خلاف مبینہ طور پر توہین رسالت کا مرتکب ہونے پر جمعہ کو مقدمہ درج کیا تھا۔
ساون مسیح پر اس کے محلے کے کچھ افراد نے الزام لگایا تھا کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے، جس کے بعد پولیس نے اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔
لیکن مشتعل مظاہرین کا الزام تھا کہ پولیس کی طرف سے موثر کارروائی نا کیے جانے پر اُنھوں نے یہ احتجاجی قدم اٹھایا۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنماء ملک پرویز نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اس واقعے کہ شدید مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
اُنھوں نے کہا کہ مشتعل افراد کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ سپریٹنڈنٹ پولیس سطح کے افسر سے توہین رسالت کے الزام کی تفتیش کرائی جائے گی۔
پاکستان میں توہین مذہب کا قانون حالیہ برسوں میں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ترمیم کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے لاہور میں مسیحی برادری کےگھروں کو آتشزدگی کا نشانہ بنائے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان کے بقول صدر نے کہا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف ایسے فساد ملک کے تشخص کو خراب کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتیں پاکستان کے مساوی شہری ہیں اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول اسلام برداشت اور اقلیتوں کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔