پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقےخیرایجنسی میں منگل کو ایک طاقتور بم دھماکے میں کم ازکم 30 افراد ہلاک اور 51 سے زائد زخمی ہوگئے۔
دھماکا پشاور سے 25 کلومیٹر دور جمرود کے مرکزی بازار میں واقع بس اسٹینڈ پر ہوا جس میں کئی گاڑیاں تباہ اورایک پیٹرول پمپ کو بھی نقصان پہنچا۔
جمرود کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کا نشانہ حکومت کے حامی زاخا خیل قبائلی لشکر کے ارکان تھے۔’’گاڑی میں بارود بھرا تھا جس میں دھماکا ہوا۔ زاخا خیل قبیلے نے امن کمیٹی بنائی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘‘
مرنے والوں میں سرکاری خاصہ دارفورس یا قبائلی پولیس کے دو اہلکاروں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کو جمرود اور پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔
کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں مشتبہ طالبان جنجگوؤں نے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی اپنی شدت پسند کارروائیوں میں بظاہر اضافہ کردیا ہے۔
جنوری کے پہلے ہفتے میں عسکریت پسندوں نے نیم فوجی فورس کے اُن پندرہ اہلکاروں کو قتل کرنے کے بعد لاشیں شمالی وزیرستان کے ایک علاقے میں پھینک دی تھیں جنہیں 23 دسمبر کو ایک حملے کے بعد اغوا کرلیا گیا تھا۔
پیر کے روزحکام کو اورکزئی کے ڈبوری کے علاقے سے اُن دس سکیورٹی اہلکاروں کی گولی سے چھلنی لاشیں ملیں جنہیں ایک فوجی چوکی پر حملے کے دوران کالعدم تحریک طالبان یا ٹی ٹی پی کے جنگجویرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
عسکریت پسندوں کی حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے بعد ان اطلاعات کی نفی ہوئی ہے کہ پاکستانی حکام ٹی ٹی پی کے ساتھ امن بات چیت کررہے ہیں۔ پاکستانی قائدین طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات کی پہلے ہی تردید کرچکے ہیں۔