محمکہ صحت کے اعلٰی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں مختلف بیماریوں ، حادثات، قدرتی آفات اور دہشت گرد حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کو سالانہ 32 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہر سال محض 20 لاکھ خون کی بوتلیں ہی دستیاب ہو پاتی ہیں ۔
خون کا عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محفوظ انتقال خون کے قومی پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر حسن عباس ظہیر نے ملک میں رضا کارانہ طور پر عطیہ خون دینے کے رجحان کو غیر تسلی بخش قراردیا۔
’’کسی بھی ملک کی اگر دو سے تین فیصد آبادی تواتر سے خون کا عطیہ دے تو اس ملک کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک تخمینے کے مطابق ایک فیصد سے بھی کم آبادی خون کا عطیہ دیتی ہے۔‘‘
عالمی ادارہ صحت سے منسلک ڈاکٹر قائد سعید بھی کہتے ہیں کہ رضا کارانہ طور پر خون کا عطیہ دینے کے رجحان کو بڑھا کر پاکستان میں ہرسال لاکھوں قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
’’دہشت گردی، تشدد، قدرتی آفات اور سڑکوں پر ہونے والے حادثے کے باعث ہر وقت خون کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں خون کا عطیہ دینے والوں میں سے 99 فیصد لوگ وہ ہیں جن کے یا رشتہ دار بیمار ہیں اور انھیں خون کی ضرورت ہے یا وہ لوگ کسی متاثرہ شخص کے دوست ہیں‘‘
انتقال خون کے سرکاری ادارے کے سربراہ حسن عباس ظہیرنے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ملک میں خون اکٹھا کرنے والے نجی بلڈ بینک میں سے بیشتر کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
’’جگہ جگہ بلڈ بینکس کھلے ہوئے ہیں ہر چھوٹے بڑے اسپتال میں بلڈ بینکس ہیں اس کے علاوہ اسپتالوں کے باہر بھی بلڈ بینکس کھلے ہوئے ہیں۔ سب اپنے اپنے طور پر کام کررہے ہیں۔ کئی سنٹرز ہیں جن میں یقیناً اچھا کام ہورہا ہے مگر زیادہ تر سنٹرز میں جو کام ہورہا ہے ان میں بہتری کی گنجائش ہے۔‘‘
عالمی دن کے موقع پر مقامی اور غیرملکی طبی ماہرین نے اپنے پیغامات میں ایک بار پھر کہا ہے کہ 18 سے ساٹھ سال عمر کے درمیان صحت مند مرد و خواتین سال میں تین مرتبہ خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔