امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے صدارتی تمغۂ برائے آزادی کے لیے 17 ناموں کا اعلان کر دیا ہے جن میں پاکستانی نژاد خضر خان بھی شامل ہیں۔
خضر خان نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے صدارتی تمغۂ برائے آزادی کے لیے اپنے انتخاب کو تمام امریکی تارکین وطن، پاکستانی اور مسلمان برادریوں کے لیے ایک اعزاز قرار دیاہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ صدر بائیڈن کے ممنون ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے اعلی ترین سویلین اعزاز کے لیے تارکین وطن کی پہلی نسل میں سے کسی فرد کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر امریکہ میں تمام دنیا سے آئے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی برابری اور معاشرے میں باعزت مقام کے علمبردار ہیں۔
بقول خضر خان "ایسا صرف امریکہ ہی میں ہو سکتا تھا کہ تارکین وطن کی پہلی نسل میں سے کسی فرد کو اس اعلی اعزاز سے نوازا جارہا ہے۔ میرے لیے بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی امریکی یہ انتہائی مسرت کا مقام ہے۔"
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں بسنے والی کثیر الثقافتی برادریوں کے لیے یہ اعزاز حوصلہ افزا ہے کیونکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ اپنے قیام کی بنیادی اقدارکےلیے سب لوگوں کو یکساں طور پرمستحق سمجھتا ہے۔
خضر خان نے، جو سن 2016 کی صدارتی مہم کے دوران ڈیمو کریٹک پلیٹ فارم سے امریکہ میں بسنے والی تمام برادریوں کے لیے برابری کی آواز کے طور پر ابھرے تھے، کہا کہ اس ایوارڈ کی اہمیت آج کے تاریخی دور میں اور بھی زیادہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں برداشت اور ہم آہنگی میں کمی دیکھنے کو آرہی ہے،
"ان حالات میں جبکہ مذہبی آزادی اور جمہوری آزادیوں کو چیلنجز درپیش ہیں اور ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا بھی کم ہو رہا ہے ، صدر بائیڈن کی طرف سے یہ ایوارڈ سب کے لیے بہت حوصلہ افزا اور امید افزا ہے۔"
خضر خان نے یہ بھی کہا کہ یہ ایوارڈ امریکہ کے تمام تارکین وطن اور تمام کمیونیٹیز کے لیے اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ امریکہ کی ترقی اور اس کی اقدار کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ؒخیال رہے کہ صدر بائیڈن نے قانون کی حکمرانی اور مذہبی آزادی کے لیے خدمات کے اعتراف میں خضر خان کو گزشتہ برس امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی میں کمشنر کے عہدے کے لیے بھی نامزد کیا تھا۔
صدارتی تمغہ برائے آزادی اعلی ترین امریکی سویلین اعزاز ہے جو ان شخصیات کو دیا جاتا ہے جنہوں نے امریکہ کی خوش حالی، اقدار اور سلامتی کے علاوہ عالمی امن کے لیے سماجی اور عوامی سطح پر خدمات سر انجام دی ہوں۔
اس موقع پر جاری کیے جانے والے بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کی تعریف صرف ایک لفظ 'مواقع' سے کی جا سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے 17 امریکیوں نے ان مواقع کی طاقت سے استفادہ کیا اور امریکی معاشرے کی روح یعنی محنت، استقامت اور یقین کا عملی نمونہ پیش کیا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں صدر نے کہا کہ ان شخصیات نے سائنس اور آرٹس کے شعبوں میں رکاوٹوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کامیابی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ ان افراد نے معاشرے کے کمزور طبقات کی وکالت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ان شخصیات کی کامیابیاں آنے والی نسلوں کےلیے روشن مثالیں ہیں۔
ان افراد کو ایوارڈ ز سے نوازنےکے لیے باقاعدہ تقریب کا اہتمام سات جولائی کو وائٹ ہاؤس میں کیا جائے گا۔
خضر خان کون ہیں؟
پاکستانی نژاد خضر خان 2004 میں عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوج کیپٹن ہمایوں خان کے والد ہیں۔ وہ قانون کی حکمرانی اور مذہبی آزادی کے لیے سرگرم رہےہیں۔
کیپٹن ہمایوں کو جرات اور بہادری سے ملک کے لیے جان قربان کرنے پر بعد از مرگ برانز سٹار اور پرپل ہارٹ کے اعزازات سے نوازا گیا تھا اور واشنگٹن ڈی سی کے قریب آرلنگٹن کے فوجی قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔
خضر خان نے 2016 میں صدارتی انتخابات سے قبل ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں اس وقت کےریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے سخت تنقید کی تھی۔ ان کی اسی تقریر نے انہیں شہرت دلائی۔
خیال رہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی جیسے متنازع بیانات دیے تھے جس پر خضر خان نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن کے دوران خطاب میں خضر خان کا کہنا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کیپٹن ہمایوں خان 2004 میں عراق میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے بیٹے نے امریکہ کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی۔
خضر خان نے اپنے کوٹ کی جیب سے امریکہ کے آئین کی کاپی نکالتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ٹرمپ نے کبھی امریکی آئین پڑھا بھی؟ انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ کاپی ڈونلڈ ٹرمپ کو دے سکتے ہیں۔
اپنی اہلیہ کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے خضر خان نے آئین کی کاپی لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس میں آزادی اور برابری کے تحفظ کے الفاظ دیکھیں۔‘‘
خضر خان اور ٹرمپ کی لفظی نوک جھونک کے دوران امریکہ میں آئین کی کاپیاں بڑی تعداد میں فروخت ہوئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ آرلنگٹن کے قبرستان جائیں اور ان بہادر امریکیوں کی قبروں کو دیکھیں جنہوں نے امریکہ کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ان کے بقول وہاں انہیں ہر مذہب، نسل اور جنس کے لوگ ملیں گے۔
خضر خان کی تنقید کے جواب میں ٹرمپ نے ایک انتخابی ریلی کے دوران کہا تھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو عراق جنگ کبھی نہ ہوتی اور نہ ہی خضر خان کا بیٹا جان کی بازی ہارتا۔
خضر خان 1980 میں امریکہ منتقل ہوئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ محب وطن مسلمان امریکی ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں۔
2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں خضر خان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کی تھی۔