رسائی کے لنکس

’توہینِ مذہب پر درزی کو قتل کرنے والا بی جے پی کا کارکن ہے‘؛ کانگریس کے الزام پر حکمران جماعت کی تردید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ راجستھان کے شہر ادےپور میں توہینِ مذہب کے نام پر ہندو درزی کے قتل کے ملوث ایک ملزم کا تعلق مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے۔

کانگریس نے بھارتی نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں حملہ آوروں میں سے ایک ریاض اٹاری کو الگ الگ تصاویر میں ریاستی بی جے پی کے کئی رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

سینئر کانگریس رہنما پون کھیڑہ نے ہفتے کو نئی دہلی میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ ایک میڈیا گروپ نے انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ ملزم ریاض اٹاری عرف ریاض اختری کا تعلق بی جے پی سے ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ کیا یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کسی تاخیر کے بغیر اس معاملے کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کیا تاکہ معاملے کو دبایا جا سکے۔

پون کھیڑہ نے نیوز کانفرنس میں بی جے پی کے ریاستی اقلیتی شعبے کے رہنماؤں ارشاد چائنا والا اور محمدطاہر کے ساتھ ریاض کی تصاویر پیش کیں جب کہ مختلف سوشل میڈیا پوسٹ بھی دکھائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی ریاست راجستھان کی اقلیتی شاخ کی اجلاسوں میں ریاض کی شرکت کی تصاویر بھی موجود ہیں۔

اس حوالے سے مزید تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بی جے پی لیڈر ارشاد چائنا والا کی جانب سے 30 نومبر 2018 کو اور محمد طاہر کی جانب سے تین فروری 2019، 27 اکتوبر 2019، 10 اگست 2021، 28 نومبر 2019 اور دیگر تاریخو ں میں فیس بک پر کی جانے والی پوسٹس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاض اٹاری صرف بی جے پی رہنماؤں کے قریب ہی نہیں تھا بلکہ وہ بی جے پی کا سرگرم رکن بھی تھا۔

بی جے پی کی تردید

بی جے پی نے کانگریس کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ بی جے پی کی ریاست راجستھان کی اقلیتی شاخ کے صدر صادق خان نے ایک نیوز کانفرنس میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ نے اسے ایک ’فیک نیوز‘ (جعلی خبر) قرار دیا اور اس واقعے کو کانگریس کی ریاست راجستھان میں قائم حکومت کی ناکامی قرار دیا۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں حیرت نہیں ہے کہ کانگریس ایک فیک نیوز دکھا رہی ہے۔

ان کے مطابق ادے پور میں درزی کے قاتل بی جے پی کے رکن نہیں ہیں۔ بی جے پی میں ان کے داخل ہونے کی کوشش ویسی ہی تھی جیسی کہ سری لنکا کی عسکریت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے راجیو گاندھی کو ہلاک کرنے کے لیے کانگریس میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کانگریس کو دہشت گردی اور قومی سلامتی کے حوالے سے لوگوں کو بے وقوف بنانا بند کر دینا چاہیے۔

ایک اور شخص کا قتل بھی تنازعے سے منسلک

دریں اثنا مہاراشٹر کے شہر امراوتی میں ایک 54 سالہ کیمسٹ کے قتل کے بارے میں حکام شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسے سوشل میڈیا پر بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کی حمایت میں کی جانے والی پوسٹ کی وجہ سے نشانہ کیا گیا ہے۔

ادے پور میں ہندو درزی کنہیا لال کے قتل سے ایک ہفتہ قبل امراوتی میں کیمسٹ امیش پرہلاد راو کولہی کو چاقو مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے اس معاملے میں پولیس کو ایک خط بھی دیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس شخص کا قتل انتقامی کارروائی کے تحت کیا گیا۔

مقامی پولیس حکام نے میڈیا کو خط ملنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس بارے میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور پانچ افراد کو گرفتاربھی کیا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر نے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ امراوتی شہر میں کولہی ایک میڈیکل اسٹور چلاتے تھے۔ انہوں نے نوپر شرما اور ان کے بیان کی حمایت میں ایک واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ ڈالی تھی۔

پولیس افسر کے مطابق انہوں نے غلطی سے ایک ایسے واٹس ایپ گروپ پر بھی اسے شیئر کر دیا تھا جس کے کچھ رکن مسلمان بھی تھے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے این آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ امراوتی قتل معاملے کی جانچ کرے۔

وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق 21 جون کو امراوتی میں امیش کولہی کے قتل کے معاملے کو این آئی اے کو سونپ دیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق اس قتل کی سازش اور اس میں ملوث تنظیموں اور بین الاقوامی تعلق کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اس معاملے میں اب تک پانچ افراد مدثر احمد، شیخ ابراہیم، شاہ رخ پٹھان خان، عبد التوفیق تسلیم، شعیب خان اور عاطف رشید کو گرفتار کیا ہے۔

توفیق تسلیم کے علاوہ کسی کا بھی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ توفیق کے خلاف ایک مسجد پر جھگڑے کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG