معاشی طور پر ابھرنے والے دنیا کے پانچ اہم ممالک کی تنظیم ’برکس‘ کی طرف سے جاری اعلامیے میں پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں لشکر طیبہ، جیش محمد اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک کا ذکر آنے کے بعد بظاہر اسلام آباد پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ’برکس‘ سربراہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے بارے میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی طرف سے جنوبی ایشیا کو درپیش خطرات پاکستان کے لیے گہری تشویش کا باعث ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ خطے بشمول افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں جن میں تحریک طالبان پاکستان اور اس سے جڑی جماعت الحرار بھی شامل ہے،وہ پاکستانیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی ذمہ دار رہی ہیں۔
وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کے وہ علاقے جہاں حکومت کی عمل داری نہیں ہے وہاں داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور آئی ایم یو جیسی تنظیموں کی موجودگی باعث تشویش ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ خطے میں انتہا پسندانہ سوچ اور عدم برداشت کے بڑھتے رجحانات پر بھی پاکستان کو تشویش ہے کیوں کہ اس سے اقلیتوں کو منظم انداز میں ہدف بنانے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اُدھر تجزیہ کارروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی پالیسی کے اعلان کے موقع پر پاکستان میں دہشت گردوں تنظیموں کی موجودگی کا ذکر کر چکے ہیں، اب ’برکس‘ ممالک کے اعلامیے میں پاکستان میں مقیم تنظیموں کا ذکر اسلام آباد کے لیے خفت کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹویٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز سے وابستہ نجم رفیق کہتے ہیں کہ ’برکس‘ ممالک کے اعلامیے کے بعد پاکستان کے کو دہشت گردوں کی بچی کُچی پناگاہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی۔
’’پاکستان کے لیے واضح پیغام ہے کہ نا صرف امریکہ بلکہ اور ممالک بھی سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کی جو پناہ گاہیں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں رہ گئی ہیں اُن سے سنجیدہ انداز میں نمٹنا ہو گا اور کوئی دہری پالیسی نہیں اپنانا ہو گی۔‘‘
اُن کے مطابق پاکستان کو ایسی حکمت علمی اختیار کرنا ہو گی ’’جس سے تمام ممالک کو یہ باور کرایا جا سکے، خصوصاً بھارت اور امریکہ کو کہ پاکستان ان دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے۔‘‘
پاکستان کے سابق سفیر علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ چین میں ہونے والی ’برکس‘ سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا ذکر اسلام آباد کے لیے ایک چیلنج تو ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اُس اعلامیے میں صرف پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا ذکر نہیں بلکہ داعش، القاعدہ اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
’’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف حکومت پاکستان بھی سخت ایکشن لے رہی ہے اور لیتی رہی ہے۔ تو ساری دنیا میں دہشت گردی کا جو مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے اُس سے نمٹنے کی بات ہو رہی ہے۔‘‘
سابق سفارت کار علی سرور نقوی نے کہا جب کسی ملک کا تعلق دہشت گردی سے جڑ جاتا ہے تو اس تاثر کو ختم کرنے میں وقت لگتا ہے۔
پاک چین اسٹیڈی پروجیکٹ سے وابستہ محمد فیصل کہتے ہیں کہ پاکستان اس بات کی شاید توقع نہیں کر رہا تھا کہ ایسی کانفرنس جہاں روس اور چین کی قیادت موجود ہو، وہاں سے پاکستان میں موجود شدت پسند تنظیموں سے متعلق کوئی ایسا بیان سامنے آئے گا۔
’’پاکستان پر دباؤ بالکل بڑھے گا، صدر ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق پالیسی کے بعد پاکستان پر اس وقت دباؤ ہے۔ اب (پاکستان) کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے، پاکستان کو پالیسی بناتے ہوئے صرف واشنگٹن کو نہیں بیجنگ کو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا۔‘‘
واضح رہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم ’جیش محمد‘ کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی بین الاقوامی فہرست میں شامل کروانے کا معاملہ اقوام متحدہ میں چین کی مخالفت کے باعث تاحال التوا کا شکار ہے۔