ملک کی سیاست میں جے یو آئی کی جانب سے وفاق کو خیرباد کہنے کے بعد آنے والا بھونچال ابھی پوری طرح تھما بھی نہ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کابینہ سے علیحدگی نے پاکستان کی سیاست میں وہ تلاطم پیدا کیا ہے کہ جمہوریت کے نام پرتقریباً تمام سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے میں گتھم گتھا ہوگئے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ نے ن لیگ کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے متحدہ کی قیادت کو پاکستان آنے پر اکسانے کی کوشش کی ہے۔ ن لیگ کی جانب سے سانحہ 12 مئی کی فائل پھر کھولنے کی باتیں ہورہی ہیں تو سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جمہوریت کی خاطر قربانی دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے الزامات پر ن لیگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ گولی اور گالی کی سیاست کرتی ہے۔
دوسری جانب سیاسی رہنماوٴں کے درمیان دن رات ایک دوسرے سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی گزشتہ شب گورنر سندھ سے ملاقات کی اور متحدہ کے تحفظات دور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک بات جو سب سے زیادہ دلچسپ ہے وہ یہ کہ گزشتہ ہفتے، دو ہفتے کے دوران جس طرح سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے سے روابط قائم کیے، تعلقات کو فروغ دیا اورجس طرح یہ جماعتیں جمہوریت کے تحفظ کے لئے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل انتہائی تابناک ہے اور آئندہ انتخابات میں نئے جمہوری اتحاد سامنے آ سکتے ہیں۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس وقت ملک دہشت گردی، بدعنوانی، بے روزگاری ، مہنگائی اور دیگر مسائل سمیت اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا کر رہا ہے اور اس تمام تر صورتحال میں میڈیا اور اپوزیشن سمیت مختلف حلقوں سے حکمراں جماعت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے تاہم کوئی طاقت بھی یہ نہیں چاہتی کہ جمہوری عمل سبوتاژ ہو اور ملک کی باگ دوڑ ایک مرتبہ پھر آمریت کے ہاتھ میں جائے جس کی واضح مثال جے یو آئی کی وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور متحدہ کی قیادت کا یہ بیان ہے کہ وہ حکومت کو کمزور نہیں کرنا چاہتے اور کابینہ سے علیحدگی کے باوجود اپوزیشن بینچوں پر نہیں بیٹھیں گے۔
جے یو آئی کی وفاق سے علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال میں مختلف خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے تاہم ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہر جماعت نے کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کیا لیکن کہیں سے بھی کوئی سازش کی بو نہیں آئی ۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی زبردست بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جانب تو وفاق سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن دوسری جانب جمہوری نظام کو سبو تاژ نہیں ہونے دیااور بلوچستان جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہے وہاں صوبائی حکومت برقرار رکھی اور کسی بھی سیاسی بحران کو پیدا نہیں ہونے دیا ۔
اس تمام تر صورتحال میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا بھی انتہائی مثبت کردار رہا۔ ایک جانب تو اس نے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے کیے تو دوسری جانب حالات کی بہتری کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی اور اس نے ثابت کر دیا کہ وقت آنے پر وہ ہر طرح کے بحران سے نکلنے کی مہارت رکھتی ہے ۔ مختلف حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کے باوجودصبر و تحمل سے کام لیا ۔بعض مبصرین اس پر متفق ہیں کہ موجودہ دور میں پیدا ہونے والی مثبت سیاسی سوچ کا سہرا بھی پیپلزپارٹی کے سر ہی جاتا ہے کیونکہ اس کے دور حکومت میں ایک بھی سیاسی قیدی منظر عام پرنہیں آیا ۔
اس تمام تر صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ کا کردار کلیدی رہا اور اس کی جانب سے ایسی حکمت عملی مرتب کی گئی کہ حکمران اتحاد بھی بچ گیا اور اس کی سیاسی اہمیت بھی واضح ہوگئی ۔ متحدہ نے اس دوران تقریباً سبھی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپنے تعلقات اور رابطوں کو استوار کیا اورقومی منظر میں ایک جاندار اور متحرک کردار ادا کر کے ان ناقدین کے تاثر کو غلط قرار دیا جو اسے علاقائی جماعت قرار دے رہے تھے۔
ماہرین اس تمام تر صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے مثبت کردار کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نو سال کی آمریت کے بعد اب ایک بار پھر جمہوری نظام تیزی سے پھل پھول رہا ہے ۔ اگر چہ ناقدین ان تما م روابط کو دو ہزار تیرہ میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے نئی سیاسی صف بندیاں قرار دے رہے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اتحاد بھی جمہوریت کا حسن ہے اور اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے مسائل کا حل بھی سیاسی طاقتوں کے متحد ہونے سے ہی نکالا جا سکتا ہے ۔