پاکستان میں حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ سبکدوش ہونے والی حکومت کو اخلاقی طور پر آئندہ سال کا بجٹ بنانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ اسی موضوع پر پروگرام جہاں رنگ میں قمر عباس جعفری نے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب اور سابق وزیر اعظم میر ظفر الہ جمالی سے بات کی۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا اخلاقی طور پر جواز ہونا یا نہ ہونا ایک الگ بات ہے۔ اصل سوال قانونی اور دستوری ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت جو موجودہ بجٹ ہے اور اخراجات کا جو موجودہ اختیار ہے وہ 30 جون کو ختم ہو جائے گا اور یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہو جائے گا تو جب تک کوئی نیا بجٹ پاس نہ ہو 30 جون کے بعد اخراجات کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہوگا تو پھر کاروبار حکومت کیسے چل سکے گا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ بجٹ تو پاس کرنا ہی پڑے گا خواہ وہ کسی بھی انداز میں ہو۔ دوسری جانب یہ سوال بھی اہم ہے کہ یہ حکومت جس کو پتا نہیں ہے کہ آگے چلے گی یا نہیں وہ کس طرح پورے سال کا بجٹ پاس کر سکتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی حکومت واپس نہیں آتی تو جو بھی حکومت آئے گی اسے اختیار حاصل ہوگا کہ اگر کوئی بجٹ پچھلی حکومت نے بنایا ہے وہ اسے منسوخ کردے۔
احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ یوں بھی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی جو تنخواہوں اور دوسرے اخراجات وغیرہ سے متعلق ہوتا ہے۔ البتہ ترقیاتی بجٹ میں تبدیلیاں ممکن ہوتی ہیں تو آنے والی حکومت انہیں تبدیل کر سکتی ہے۔
اس لئے اس وقت عملی طور پر یہی ممکن ہے کہ موجودہ حکومت اگلے سال کا بجٹ بنا لے اور بعد میں جو حکومت آئے وہ اپنی ترجیحات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کر لے۔
سابق وزیر اعظم ظفرالہ جمالی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ان کو اس حکومت کے بجٹ بنانے پر کیوں اعتراض ہے تو انہوں نے کہا اس حکومت کو آئینی طور پر جو پانچ بجٹ پیش کرنے تھے وہ کر چکی ہے۔ اب وہ نئی حکومت کے آنے کا انتظار کیوں نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک لائحہ عمل ہے لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ بجٹ پاس ہونے کے بعد انہیں انتخابی مہم چلانے کے لئے پیسے مل جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت بجٹ بنانا ہی چاہتی تو تین یا چار مہینے کا بجٹ بنا لے اور آئندہ کے فیصلے آنے والی حکومت پر چھوڑ دے۔
احمد بلال محبوب سے جب سوال کیا گیا کہ ان حالات میں بجٹ لانے کا طریقہ کار کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ کیونکہ انتخابات عام طور سے کسی مخصوص مہینے میں نہیں ہوتے۔ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے پر ہوتے ہیں۔ اس اسمبلی کی پانچ سالہ مدت بھی ختم ہو گی تو ساٹھ دن کے اندر انتخابات کرانے ہوں گے۔ اس لئے اس غیر معمولی صورت حال میں یہی ہو سکتا ہے کہ چند مہینے کے لئے کوئی بجٹ بنا لیا جائے اور اس غیر معمولی صورت حال میں کوئی راستہ نکالا جائے۔
ہم نے اس سلسلے میں حکومتی ارکان سے بھی رجوع کیا تھا کہ وہ اپنا نقطہ نظر دینا چاہیں تو پروگرام میں تشریف لائیں لیکن کسی کے پاس وقت نہ تھا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔