وفاقی حکومت نے گذشتہ ہفتے 32 کھرب 59 ارب روپے کا بجٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جس پر منگل کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کا آغا زہوا۔سینٹ میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف وسیم سجاد نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں مسائل کی نشاندہی تو کی ہے لیکن اُن کے حل کے لیے کوئی اقدامات تجویز نہیں کیے۔
نئے بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ جب کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے مختص رقم کی کٹوتی پر حکومت کو تنقید کا سامنا ہے ۔ جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا ماننا ہے کہ تمام تر معاشی دشواریوں کے باوجود بجٹ میں حکومت کے اخراجات میں غیر معمولی اضافے کے اعلان کا بوجھ بھی عام آدمی پر پڑے گا۔
لیکن وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پہلے ہی اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان آمدنی اور وسائل کی تقسیم کے نئے فارمولے کے بعد صوبائی حکومتیں اپنی مرضی کے مطابق تعلیم اور صحت ایسی سہولیات کی فراہمی کے لیے بجٹ مختص کر سکتی ہیں۔
اس بجٹ میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے سے طے شدہ شرط کے مطابق ٹیکس وصولی کا نیا نظام ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ بھی تین ماہ کے لیے موخر کر دیا گیا ہے جس کے بعدناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی آئندہ قسط کے حصول میں حکومت کو مشکلات ہو سکتی ہیں جس کے بعد بجٹ خسارے میں مزید اضافے کا امکان بھی ہے۔
تاہم سینئر اقتصادی تجزیہ کارڈاکٹر اشفاق حسن خان حکومت کے اس نقطہ نظر سے متفق دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات اور امن وامان کے حوالے سے مشکل حالات کے پیش نظر نیا مالی بجٹ ملک میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا۔ان کے مطابق بجٹ میں ممکنہ حد تک غریب عوام کو بھی ریلیف دیا گیا ہے جب کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 50ارب روپے کا اضافہ بھی خوش آئند ہے۔
ادھر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی بدستور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی مخالفت پر قائم ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اس کے نفاذ سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا اور یہ کہ اس نئے ٹیکس کے نفاذ کی بجائے موجودہ جنرل سیلز ٹیکس میں ہی اصلاحات لائی جانی چاہئیں۔