وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے اردگرد ماحول میں تتلیاں کم نظر آنے لگی ہیں وہیں دوسری طرف اس سے وابستہ بہت سی رومان پرور اور دلنشین روایتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔
پھولوں کے گرد منڈلاتی تتلیوں میں سب سے خوبصورت تتلی کو پکڑنا اور پھر اسے کتاب میں قید کرلینا ایک دلچسپ مشغلہ رہا ہے لیکن اب کمپیوٹر کی بھرمار سے نہ تو کتابوں سے اتنا ربط نظرآتا ہے اور نہ ہی فطری حسن کو سراہنے کاوقت۔
احمد شمیم کی نظم ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ کے یہ مصرعے یاد آگئے۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے۔
مگر بدلتے دور کے اپنے ہی تقاضے ہیں۔ دن کو اڑتی بھاگتی تتلیاں منظروں کی دلکشی میں اضافہ کرتی تھیں تو رات کو جگنوستاروں کی طرح زمین پر ہرسوچمکتے نظر آتے تھے۔
اس سب کی بظاہر ایک وجہ توہمارے رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحول میں ہونے والی تبدیلی کا اثر سب سے پہلے تتلیوں پر ہوتا ہے۔
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے سربراہ ڈاکٹر ایس اظہر حسن کا کہنا ہے کہ تتلیوں کی افزائش اور ان کی تعداد میں اضافے کے لیے ماحول کا صاف ستھرا ہونا بہت ضروری ہے اور فضا یا ماحول میں جیسے جیسے آلودگی بڑھے گی تتلیاں وہاں سے کوچ کرتی جائیں گی ۔ ان کے مطابق سائنسدان تتلیوں کا مشاہدہ کرکے ماحولیات میں ہونے والی آئندہ تبدیلی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
اب تک دنیا بھر میں تتلیوں کی تقریباً 15ہزار اقسام کے بارے میں معلوم ہوسکا ہے جن میں چند ملی میٹر سے لے کر تقریباً ایک فُٹ لمبے پروں والی تتلیاں شامل ہیں۔
انسان نے جہاں ترقی کے نام پر ماحول کو اپنے لیے ہی مضر بنا لیا ہے وہیں قدرتی مناظر اور اس میں بسنے والے خوبصورت نباتات اور حشرات آہستہ آہستہ کم اور ختم ہورہے ہیں۔
شاعرہ نوشی گیلانی نے کئی سال پہلے اپنی ایک نظم میں تتلی کے استعارے کو جس طرح استعمال کرتے ہوئے جو بات کہی تھی وہ آج صحیح معلوم ہوتی ہے۔
”اے نظر کی خوش فہمی، اس طرح نہیں ہوتا
تتلیاں پکڑنے کو دورجانا پڑتا ہے“۔